شکستِ خواب
مِرے ایلیا
تیری آنکھوں میں یہ جو تجسس کے شعلے
رواں ہیں
دواں ہیں
مجھے سب خبر ہے
اور ایسے سوالوں کے ممکن جوابوں کے کتنے گماں ہیں
کہ آخر جو کندھے پہ میرے دھرا ہے
بھلا ایسے تھیلے میں کیا کچھ بھرا ہے
کہ جس کو میں دریا کے پانی کی لہروں کے اندر ڈبونے کو آیا کھڑا ہوں
٭
مِرے ایلیا
فارہہ کی قسم
اس میں لعل و جواہر تو ہرگز نہیں
(ٹھہریے ایلیا اس طرف دیکھیے کوئی آتا نہ ہو)
گو کہ یعنی جواہر تو ہرگز نہیں
اس میں اک لاش ہے
مسکرائیں نہیں
یہ تبسم تو اس کی نگاہوں کی زینت تھا
وہ جس کو پتھر کے اندر بھی دانہ رسانی کی باتیں سناتے ہوئے اک خدا نے بھی روٹی کا لقمہ نہ پوچھا
وہ جو اپنی کٹیا میں بھوکا رہا
وہ جو مرتے ہوئے بھی مسلسل مرا
یہ تبسم تو اس کی نگاہوں ۔۔۔
٭
مگر ایلیا
اذیت سے مرتے ہوئے اس بدن کا وہ نہلایا لاشہ تو کب سے دفن ہے
یہ وہ تو نہیں ہے
مگر لاش ہے
فارہہ کی قسم
اس میں اک لاش ہے
مرنے والے نے اپنی جوانی میں تیرے بسائے شہر
خائباں کی ولایت میں
اپنی سی جھوٹی تسلی کی خاطر
خراخر کی گونجوں میں سپنا بُنا
اس نے سپنا بُنا کہ رحمدل خدا
وہ کہ خالق وہ مالک وہ رازق ہے جو) اس رحمدل، رازق کی دنیا میں کوئی)
کہیں پہ کبھی بھی نہ بھوکا مرے
اس نے سپنا بُنا کہ اذیت کے بے انت بابوں کا کوئی مداوا کرے
کوئی آہیں بھرے، نہ ہی پیاسا مرے
٭
پر مِرے ایلیا
کل قحط سال صحرا کے اندر
سسکتے
تڑپتے
مچلتے
بلکتے ہوئے
چند معصوم بچے جو بھوکوں مرے، وہ جو پیاسے مرے
خائباں کی ولایت کے خوابوں کو خود پہ ہی شرم آ گئی
مرنے والے کے خوابوں نے اتنی شکستوں سے گھبرا کے آخر کو جاں ہار دی
٭
اے مِرے ایلیا
اس کے خوابوں کا خوشیوں کا سپنا
مرا ہے
یہاں ایلیا
میرے کندھے پہ خوابوں کا لاشہ دھرا ہے
صہیب مغیرہ صدیقی
No comments:
Post a Comment