ہم حدِ اندمال سے بھی گئے
اب فریبِ خیال سے بھی گئے
دل پہ تالا،۔ زبان پر پہرہ
یعنی اب عرضِ حال سے بھی گئے
جامِ جَم کی تلاش لے ڈوبی
خوفِ کم مائیگی! برا ہو تِرا
آرزوئے وصال سے بھی گئے
یوں مٹے ہم کہ اب زوال نہیں
شوقِ اوجِ کمال سے بھی گئے
ہم نے چاہا تھا تیری چال چلیں
ہائے ہم اپنی چال سے بھی گئے
حسنِ فردا خیال و خواب رہا
اور ماضی و حال سے بھی گئے
ہم تہی دست وقفِ غم ہیں وہی
تنگنائے سوال سے بھی گئے
سجدہ بھی عرش ان کو کر دیکھا
اس رہِ پائمال سے بھی گئے
عرش صدیقی
No comments:
Post a Comment