Friday, 31 January 2020

اچھے اچھے دوست بھی آخر حماقت کر گئے

اچھے اچھے دوست بھی آخر حماقت کر گئے
کچھ سیاسی ہو گئے اور کچھ وکالت کر گئے
شکر ہے کہ بچ گئے دونوں بڑے نقصان سے
میں محبت کر گیا، اور وہ تجارت کر گئے
سوچتا ہوں تو گھڑی بھر کو یقیں آتا نہيں
کیسے کیسے لوگ اس دل پر حکومت کر گئے
کل مجھے اک خواب میں یہ بھی بشارت دی گئی
ان کی بخشش رک گئی ہے جو عبادت کر گئے
اب اکیلے جل رہا ہوں معبدوں کی آگ میں
میں یہاں جن کے لیے آیا تھا ہجرت کر گئے
پہلے تو انکار کی ہامی بھری اور اس کے بعد
چار سکوں کے عوض سب لوگ بیعت کر گئے
میں سمجھتا تھا محبت اور ہوس میں فرق ہے
اور پھر اک روز وہ خود ہی وضاحت کر گئے

عمران عامی

No comments:

Post a Comment