Monday 20 January 2020

زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے

زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے
روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش
کوئی چلتا نہیں، اور ہمسفری لگتی ہے
آنکھ مانوسِ تماشا نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے
گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے
سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے، بری لگتی ہے
میرے شیشے میں اتر آئی ہے جو شامِ فراق
وہ کسی شہرِ نگاراں کی پری لگتی ہے
بوند بھر اشک بھی ٹپکا نہ کسی کے غم میں
آج ہر آنکھ کوئی ابرِ تہی لگتی ہے
شورِ طفلاں بھی نہیں ہے نہ رقیبوں کا ہجوم
لوٹ آؤ، یہ کوئی اور گلی لگتی ہے
گھر میں کچھ کم ہے، یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیم
یہ بھی کھُلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے

سلیم احمد​

No comments:

Post a Comment