دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی
ہر طرف دیکھ لیا جب تِری صورت دیکھی
آئے اور اک نگۂ خاص سے پھر دیکھ گئے
جبکہ آتے ہوئے بیمار میں طاقت دیکھی
قوتیں ضبط کی ہر چند سنبھالے تھیں مجھے
محفل حشر میں یہ کون ہے میرِ مجلس؟
یہ تو ہم نے کوئی دیکھی ہوئی صورت دیکھی
سب یہ کہتے ہیں اسے اب کوئی آزار نہیں
کیوں ستمگار مِرے ضبط کی قوت دیکھی
سونے والوں پہ نہ چمکا کبھی نورِ سحری
رونے والوں ہی کے چہروں پہ صباحت دیکھی
اس قدر یاس بھی ہوتی ہے کہیں دنیا میں
رو دیئے ہم جو تِری چشمِ عنایت دیکھی
مجھ کو تعلیم سے فرصت ہی کہاں اے شبیر
کہہ لیا شعر کوئی جب کبھی فرصت دیکھی
جوش ملیح آبادی
اس غزل میں جوش ملیح آبادی نے مقطع میں اپنا اصل نام شبیر استعمال کیا ہے، ان کا اصل نام شبیر حسن خاں ہے۔
No comments:
Post a Comment