Thursday, 9 January 2020

دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی

دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی 
ہر طرف دیکھ لیا جب تِری صورت دیکھی 
آئے اور اک نگۂ خاص سے پھر دیکھ گئے 
جبکہ آتے ہوئے بیمار میں طاقت دیکھی 
قوتیں ضبط کی ہر چند سنبھالے تھیں مجھے 
پھر بھی ڈرتے ہوئے میں نے تِری صورت دیکھی 
محفل حشر میں یہ کون ہے میرِ مجلس؟
یہ تو ہم نے کوئی دیکھی ہوئی صورت دیکھی 
سب یہ کہتے ہیں اسے اب کوئی آزار نہیں 
کیوں ستمگار مِرے ضبط کی قوت دیکھی 
سونے والوں پہ نہ چمکا کبھی نورِ سحری 
رونے والوں ہی کے چہروں پہ صباحت دیکھی 
اس قدر یاس بھی ہوتی ہے کہیں دنیا میں 
رو دیئے ہم جو تِری چشمِ عنایت دیکھی 
مجھ کو تعلیم سے فرصت ہی کہاں اے شبیر 
کہہ لیا شعر کوئی جب کبھی فرصت دیکھی 

جوش ملیح آبادی

اس غزل میں  جوش ملیح آبادی نے مقطع  میں اپنا اصل نام شبیر استعمال کیا ہے، ان کا اصل نام شبیر حسن خاں ہے۔

No comments:

Post a Comment