Monday 29 July 2019

پیراہن سیہ نہ عزا خانہ شرط ہے

پیراہنِ سیہ نہ عزا خانہ شرط ہے
غم کے لیے فقط تِرا یاد آنا شرط ہے
محفل وہیں جمے گی جہاں بیٹھ جائیں یار
کب ہاؤ ہو کے واسطے مے خانہ شرط ہے
آپ اور میں تو لازم و ملزوم ہیں، جناب
اثباتِ حُسن کے لیے دیوانہ شرط ہے

تو میرے روکھے پن پر تلملا نئیں

تُو میرے رُوکھے پن پر تلملا نئیں
میں جتنا بے مروت اب ہوں، تھا نئیں
خوشی بے حد سہانی کیفیت ہے
مگر غم سے زیادہ دیرپا نئیں
مِرے اشکوں کو مت بہلائیں، جائیں
یہ میرا مسئلہ ہے، آپ کا نئیں

عمر بھر عشق کسی طور نہ کم ہو آمین

عمر بھر عشق کسی طور نہ کم ہو، آمین
دل کو ہر روز عطا نعمتِ غم ہو، آمین
میرے کاسے کو ہے بس چار ہی سکّوں کی طلب
عشق ہو، وقت ہو، کاغذ ہو، قلم ہو، آمین
حجرۂ ذات میں یا محفلِ یاراں میں رہوں
فکر دنیا کی مجھے ہو بھی تو کم ہو، آمین

Thursday 25 July 2019

تم پکار لو تمہارا انتظار ہے

گیت

تم پکار لو 
تمہارا انتظار ہے
خواب چن رہی ہے رات، بیقرار ہے
تمہارا انتظار ہے
تم پکار لو

صرف آنکھیں ہی دیکھیں تھیں میں نے

صرف آنکھیں ہی دیکھیں تھیں میں نے 
نیم باز ان آنکھوں سے جب 
نیم کش اک نگاہ اٹھی تھی 
اک خلش رہ گئی ہے سینے میں
میر کہتے تھے
"نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے" 

Monday 22 July 2019

غم دوراں کی کسی رات سے کب گزرا ہے

غمِ دوراں کی کسی رات سے کب گزرا ہے 
یہ جنوں قرب کے لمحات سے کب گزرا ہے
تُو بھی میری ہی طرح خود سے گریزاں ہوتا
تُو مِری جاں، مِرے خدشات سے کب گزرا ہے
ہر گھڑی خوف لگا رہتا ہے بچھڑ جانے کا 
تُو ابھی شہر طلسمات سے کب گزرا ہے

ٹوٹے ہوئے سپنے کی طرف دیکھ رہا ہے

ٹوٹے ہوئے سپنے کی طرف دیکھ رہا ہے
بچہ ہے کھلونے کی طرف دیکھ رہا ہے
ہر چند نظر بدلی ہے ہر شخص نے لیکن
وہ پھر بھی زمانے کی طرف دیکھ رہا ہے
بچنے کے تمہیں جو بھی جتن کرنے ہیں کر لو
طوفان کنارے کی طرف دیکھ رہا ہے

کب کہاں کس سے کوئی وصل کی شب مانگتا ہے

کب کہاں کس سے کوئی وصل کی شب مانگتا ہے
سرد راتوں کے گزرنے کا سبب مانگتا ہے
اپنے خوابوں کے فسُوں سے وہ نکل آیا ہے
رنگ کچھ ہلکے وہ تصویر میں اب مانگتا ہے
کیا عجب خواہشیں اس ذہن نے پالی ہوئی ہیں
دن کو ڈھلنے نہیں دیتا ہے پہ شب مانگتا ہے

Sunday 21 July 2019

یہی منظر تھے انجانے سے پہلے

یہی منظر تھے انجانے سے، پہلے
تمہارے شہر میں آنے سے پہلے
زمیں کی دھڑکنیں پہچان لینا
کوئی دیوار بنوانے سے پہلے
پلٹ کر کیوں مجھے سب دیکھتے ہیں
تمہارا ذکر فرمانے سے پہلے

رستہ روکتی خاموشی نے کون سی بات سنانی ہے

رستہ روکتی خاموشی نے کون سی بات سنانی ہے
رات کی آنکھیں جان چکی ہیں، کس کے پاس کہانی ہے
جب اس کی وسعت سے نکلے میری وحشت، خواب، سراب
دامن جھاڑ کے دشت پکارا، اب کیسی ویرانی ہے
منظر ہے کھڑکی کے اندر یا ہے کھڑکی سے باہر
گردوں کی گیرائی ہے یا خاک نے چادر تانی ہے

بول کنارے

بول کنارے

کانچ کی چُوڑی ہاتھ پہ توڑ کے
ٹکڑوں میں اک خواب سجایا
بادل میں اک شکل بنا کر
پورے سال کی بارش آنکھ سے برسا دی
رخساروں سے پلک اٹھا کر

مرے بدن سے مت لپٹ حواس باختہ ہوا

مِرے بدن سے مت لِپٹ حواس باختہ ہوا
بجھے چراغ سے تِرا کہاں کا واسطہ ہوا
نہ تالیاں بجا مِرے بکھرتے بال و پر پہ یوں
تِری طرف پلٹ پڑے خدانخواستہ ہوا
غبار اڑاتی مقتلوں سے مکتبوں تک آ گئی
نجانے کون وحشتوں کی فیض یافتہ ہوا

یہ دھند صبح زمستاں یہ برف زار اور میں

یہ دھند، صبحِ زمستاں، یہ برفزار اور میں
لہو میں تازہ تِرے وصل کا خمار اور میں
یہ خواب جیسی حسیں صبحِ وادئ کالام
پھر اس پہ تیری توجہ کا اعتبار اور میں
یہ ریستوران کا ٹیرس، یہ صبح کی چائے
تمہارے نیند سے اٹھنے کا انتظار اور میں

لہر اس آنکھ میں لہرائی جو بے زاری کی

لہر اس آنکھ میں لہرائی جو بے زاری کی
میں نے ہنستے ہوئے پھر کوچ کی تیاری کی
مجھے جس رات سمندر نے اتارا خود میں
میں نے اس رات بھی ساحل کی طرفداری کی
میں نے گریہ کو بھی آداب کے اندر رکھا
اپنے اعصاب پہ وحشت نہ کبھی طاری کی

دیکھ پائی نہ مرے سائے میں چلتا سایہ

دیکھ پائی نہ مِرے سائے میں چلتا سایہ
رات نے چھین لیا پھر مِرا ڈھلتا سایہ
میں نے اس واسطے منہ کر لیا سورج کی طرف
مجھ سے دیکھا نہ گیا آگے نکلتا سایہ
میں وہی ہوں مِرا سایہ بھی وہی ہے اب تک
میں بدلتا تو کوئی رنگ بدلتا سایہ

Saturday 20 July 2019

یہ وقت عصر ہے لہجے میں پیاس شامل کر

یہ وقتِ عصر ہے لہجے میں پیاس شامل کر
دعائے شام میں خالی گلاس شامل کر
تُو اپنے وصل کے اس میٹھے لال شربت میں 
ہماری مان زرا سی کھٹاس شامل کر
یہ ریشمی ہمیں گمراہ کرتا ریتا ہے
بدن بُنت میں بہت سی کپاس شامل کر

قسم اٹھاؤ کہ اب محبت نہیں کرو گی

جو میں مروں گا تو ساتھ میرے نہیں مرو گی
قسم اٹھاؤ کہ اب محبت نہیں کرو گی
تو کیا کہو گی کہ شہزادہ نہیں ملا تھا
تو اپنے بچوں سے ذکر میرا نہیں کرو گی
میں گاؤں کا ہوں سو ڈر رہا ہوں جدائیوں سے
تُو شہر کی ہے میں جانتا ہوں نہیں ڈرو گی

خود پرستی میں ہی مرے گا کیا

خود پرستی میں ہی مرے گا کیا
اس قدر حسن کا کرے گا کیا
آج میری کھلی ہتھیلی پر
پھول کے بدلے دل دھرے گا کیا
میرے بازو پہ سونے والے تُو
اب اکیلا نہیں ڈرے گا کیا

ذرا سے ہجر پہ تکرار کرنے لگ گئی ہے

ذرا سے ہجر پہ تکرار کرنے لگ گئی ہے
وہ بدتمیز مجھے پیار کرنے لگ گئی ہے
میں خوش تھا اپنے ہی جیسے بیوفاؤں میں 
تری وفا مجھے بیمار کرنے لگ گئی ہے
ہمارا رزق ابھی تک نظر نہیں آیا
بدن کی بھوک تو اظہار کرنے لگ گئی ہے

درون جسم کی چیخ و پکار سے پہلے

درون جسم کی چیخ و پکار سے پہلے
صدائیں آتی تھیں قرب و جوار سے پہلے
ہمارے ربط کو ترتیب نے بگاڑا ہے 
میں اس کے ساتھ کھڑا تھا قطار سے پہلے
نظر نہ آنا بصارت کا عیب تھوڑی ہے
دکھائی دیتا ہے گرد و غبار سے پہلے

تمہارے بعد الٹ ہو گئی ہیں ترتیبیں

مختصر نظم

تمہارے بعد
الٹ ہو گئی ہیں ترتیبیں
کہیں پہ لوہے کی کھڑکی کو کھا گئی دیمک
کہیں کواڑ کی لکڑی کو زنگ لگ گیا ہے

حسیب الحسن

گلاب چہروں کی شادمانی کا کیا بنے گا

گلاب چہروں کی شادمانی کا کیا بنے گا؟
کہ باغ چھوڑا تو "باغبانی" کا کیا بنے گا؟
ہمارے آنسو کسی ٹھکانے تو لگ رہے ہیں
فرات کے بد نصیب پانی کا کیا بنے گا؟
جو ناسمجھ تھے وہ اس کو پڑھنے میں لگ گئے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ جون جانی کا کیا بنے گا؟

دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا

دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
اس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
تھیں جن کے دَم سے رونقیں شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا
بانہوں میں جب لیا اسے نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا مجھے نادان تو نہ تھا

Friday 19 July 2019

یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے

سیاست

یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے
میں سمجھتا ہوں میں بھی حق پر ہوں
تم سمجھتے ہو تم بھی حق پر ہو
میں تمہیں ماردوں تو تم ہو شہید
تم مجھے مار دو تو میں ہوں شہید

آخری ٹیس آزمانے کو

آخری ٹیس آزمانے کو 
جی تو چاہا تھا مسکرانے کو
یاد اتنی بھی سخت جاں تو نہیں 
اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو
سنگریزوں میں ڈھل گئے آنسو 
لوگ ہنستے رہے دکھانے کو

زباں کو حکم نگاہ کرم کو پہچانے

زباں کو حکم، نگاہِ کرم کو پہچانے 
نگہ کا جرم، غبارِ الم کو پہچانے 
وہ ایک جام کہاں ہر کسی کی قسمت میں 
وہ ایک ظرف کہ اعجاز‌ سم کو پہچانے 
متاع درد پرکھنا تو بس کی بات نہیں 
جو تجھ کو دیکھ کے آۓ وہ ہم کو پہچانے 

تو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

اے مری زندگی اے مری ہم نوا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
کچھ نہ اپنی خبر کچھ نہ تیرا پتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
جتنے چہرے چراغوں کے تھے بجھ گئے، اب وہ جلسے گئے وہ قرینے گئے 
اب کدھر جی لگے شامِ یاراں بتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
درد میں درد کی سی چمک ہی نہیں وہ زمیں ہی نہیں وہ فلک ہی نہیں 
بے ستارہ ہے شب اے شبِ آشنا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 

وہ بیوفا ہے تو کیا مت کہو برا اس کو

وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو برا اس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اس کو
نظر نہ آئے تو اس کی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا 
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اس کو

کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق کے مارے ہوئے لوگ

کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق کے مارے ہوئے لوگ
اپنے اِمروز میں فردا کو گزارے ہوئے لوگ
تجھ سے بے رُخ ہوئے جب آئینہ خانے تیرے
کام آۓ ہیں یہی دل کے سنوارے ہوئے لوگ
سلسلے جوڑتے رہتے ہیں سخن کے کیا کیا
یہ تری چُپ، ترے لہجے کے پکارے ہوئے لوگ

Monday 8 July 2019

مقتل میں چمکتی ہوئی تلوار تھے ہم لوگ

مقتل میں چمکتی ہوئی تلوار تھے ہم لوگ 
جاں نذر گزاری پہ بھی تیار تھے ہم لوگ
ہم اہلِ شرف لوگ تھے اس شہر میں، لیکن 
رسوا بھی سرِ کوچہ و بازار تھے ہم لوگ
کام آتے نہ تھے ہم کو بس اک کارِ جنوں کے 
دنیا کی نگاہوں میں تو بے کار تھے ہم لوگ

ہجر سے ہو نہ ہی وصال سے ہو

ہجر سے ہو نہ ہی وصال سے ہو
ہو محبت تو اس کمال سے ہو
یہ جو آئینہ چپ ہے، ممکن ہے
محوِ حیرت ترے جمال سے ہو
نقشِ گر! کیا خبر کہ تیرا وجود
خود کسی نقش کے خیال سے ہو

Sunday 7 July 2019

روز تلخی یوں پینی پڑتی ہے

روز تلخی یوں پینی پڑتی ہے
جیسے چائے میں چینی پڑتی ہے
کون آئے مِرے تعاقب میں
راہ میں بے زمینی پڑتی ہے
اس قدر تو نہیں جگہ دل میں
جس قدر بے یقینی پڑتی ہے

دھڑکنوں کے سفیر ہو جائیں

دھڑکنوں کے سفیر ہو جائیں
جب یہ موسم شریر ہو جائیں
تھوڑی ہم پر عطا محبت کی
تھوڑے ہم بھی امیر ہو جائیں
مجھ پہ ہجرت اتارنا مولا
لوگ جب بے ضمیر ہو جائیں

ربط اخلاص سے زیادہ ہے

ربط، اخلاص سے زیادہ ہے
ضبط بھی پیاس سے زیادہ ہے
خاص ہوتے ہیں زندگی میں لوگ
اور تُو خاص سے زیادہ ہے
جسم پہ اوڑھ لی ہے غربت جو
جسم پہ ماس سے زیادہ ہے