بول کنارے
کانچ کی چُوڑی ہاتھ پہ توڑ کے
ٹکڑوں میں اک خواب سجایا
بادل میں اک شکل بنا کر
پورے سال کی بارش آنکھ سے برسا دی
اس کے تیز کنارے سے اک چھید کیا اور
ایک لکیر لپک کر آئی
رات کی کالی چادر پر اک تارا ٹوٹا
اپنی دعا میں انجانا اک نام لیا
اور لمبے بالوں کی اک سیڑھی
شام کی کھڑکی سے لٹکائی
کتنے بوجھل پہر گزارے
جانے کس بے درد سے پل میں
اپنے پانو کو خواب کی بہتی جھیل میں دَھر کر
نیند کی ایک صدی سے ڈر کر
کھڑکی کے کونے کو چھوڑا
اور سڑک سے ریزہ ریزہ جسم اٹھایا
ایک سہیلی باغ میں بیٹھ کے کبھی نہ روئی
لیکن دل ہی دل میں کھیل بہت یہ کھیلا
بات کوئی جو ساتھ کسی کے یکدم کہہ دی
لکڑی کو دھیرے سے چھوا
اور اپنے نام کو اس کے نام کے ساتھ ملا کر ریت پہ لکھا
ایک اک حرف کو درد کے نوکیلے نشتر سے کاٹ دیا
دوری کے اک دھندلے پل میں
پھول کی ایک اِک پتی توڑ کے طاق میں رکھی
خوابوں سے تعبیر نکالی
کاغذ سے اک ناﺅ بنائی
آنسو کی گہری بارش سے جل تھل کو اک سار کیا
کشتی میں اس دل کو رکھا
بول کنارے
کتنا پانی آج کی شب دریا میں آیا؟
عنبرین صلاح الدین
No comments:
Post a Comment