مِرے بدن سے مت لِپٹ حواس باختہ ہوا
بجھے چراغ سے تِرا کہاں کا واسطہ ہوا
نہ تالیاں بجا مِرے بکھرتے بال و پر پہ یوں
تِری طرف پلٹ پڑے خدانخواستہ ہوا
غبار اڑاتی مقتلوں سے مکتبوں تک آ گئی
سنا ہے اب تو وہ بھی راستوں کی دھول ہو گئے
کہ جن سے پوچھتی تھی میرے گھر کا راستہ ہوا
فضا میں اڑ رہے ہیں پر سفید فاختاؤں کے
چمن میں چل رہی ہے ایک ناشناختہ ہوا
سنا ہے اس کو بھی نئی فضا میں چین آ گیا
مجھے بھی راس آ گئی یہ ہجر ساختہ ہوا
سجاد بلوچ
No comments:
Post a Comment