دیکھ پائی نہ مِرے سائے میں چلتا سایہ
رات نے چھین لیا پھر مِرا ڈھلتا سایہ
میں نے اس واسطے منہ کر لیا سورج کی طرف
مجھ سے دیکھا نہ گیا آگے نکلتا سایہ
میں وہی ہوں مِرا سایہ بھی وہی ہے اب تک
تم نے اچھا ہی کیا چھوڑ گئے، ویسے بھی
ایک سائے سے بھلا کیسے سنبھلتا سایہ
تجھ پہ گزری ہی نہیں وحشتِ شامِ ہجراں
تُو نے دیکھا نہیں سائے کو نگلتا سایہ
سجاد بلوچ
No comments:
Post a Comment