Sunday 21 July 2019

رستہ روکتی خاموشی نے کون سی بات سنانی ہے

رستہ روکتی خاموشی نے کون سی بات سنانی ہے
رات کی آنکھیں جان چکی ہیں، کس کے پاس کہانی ہے
جب اس کی وسعت سے نکلے میری وحشت، خواب، سراب
دامن جھاڑ کے دشت پکارا، اب کیسی ویرانی ہے
منظر ہے کھڑکی کے اندر یا ہے کھڑکی سے باہر
گردوں کی گیرائی ہے یا خاک نے چادر تانی ہے
کوندے سے لپکے پڑتے ہیں چٹکی بھر نیلاہٹ سے
تاروں میں منظر کھُلنے سے پہلے کی حیرانی ہے
آپ کہیں تو تین زمانے ایک ہی لہر میں بہہ نکلیں
آپ کہیں تو سب باتوں میں ایسی ہی آسانی ہے
اپنے اپنے طرز سخن میں، اپنے اپنے دل کی بات
آپ کہیں تو دانائی ہے، ہم کہہ دیں نادانی ہے
رات کی چادر تہہ ہونے تک، دھوپ کا جادو کھلنے تک
دروازے کے بند کواڑوں نے کیا بات چھُپانی ہے
جتنے پل تک رقص کریں گی کرنیں برف کی قاشوں پر
کہساروں کے دامن میں بھی تب تک ایک کہانی ہے

عنبرین صلاح الدین

No comments:

Post a Comment