Tuesday 22 May 2018

نہ حرف شوق نہ طرز بیاں سے آتی ہے

نہ حرفِ شوق نہ طرزِ بیاں سے آتی ہے 
سپردگی کی صدا جسم و جاں سے آتی ہے 
کوئی ستارہ رگ و پے میں ہے سمایا ہوا 
مجھے خود اپنی خبر آسماں سے آتی ہے 
کسی دکان سے ملتی نہیں ہے گرمیٔ شوق 
یہ آنچ وہ ہے جو سوزِ نہاں سے آتی ہے 

اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں

اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں 
خود کو ہم گردشِ آفات میں ڈالے ہوئے ہیں 
ہیں تو آباد، مگر در بدری کی زد پر 
وہ بھی میری ہی طرح گھر سے نکالے ہوئے ہیں 
اپنی رفتار سے آگے بھی نکل سکتا ہوں 
مجھ پہ کب حاوی مرے پاؤں کے چھالے ہوئے ہیں 

بظاہر یہ وہی ملنے بچھڑنے کی حکایت ہے

بہ ظاہر یہ وہی ملنے بچھڑنے کی حکایت ہے 
یہاں لیکن گھروں کے بھی اجڑنے کی حکایت ہے 
سپہ سالار کچھ لکھتا ہے تصویر ہزیمت میں 
مگر یہ تو عدو کے پاؤں پڑنے کی حکایت ہے 
کنیزِ بے نوا نے ایک شہزادے کو چاہا کیوں 
محبت زندہ دیواروں میں گڑنے کی حکایت ہے 

Monday 21 May 2018

اس خرابے میں کچھ آگے وہ جگہ آتی ہے

اس خرابے میں کچھ آگے وہ جگہ آتی ہے
کہ جہاں خواب بھی ٹوٹے تو صدا آتی ہے
میں نے زندان میں سیکھا تھا، اسیروں سے اک اِسم
جس کو دیوار پہ پھونکیں تو ہوا آتی ہے
خوب رونق تھی ان آنکھوں میں، پھر اک خواب آیا
ایسے، جیسے کسی بستی میں وبا آتی ہے

سمے نہ دیکھ ابھی گفتگو چلی ہی تو ہے

سمے نہ دیکھ، ابھی گفتگو چلی ہی تو ہے
میں روک دوں گا کسی وقت بھی، گھڑی ہی تو ہے
حسین ہوتی ہے مرضی کی موت، سامنے دیکھ
یہ آبشار بھی دریا کی خودکشی ہی تو ہے
بھٹکتا رہتا ہوں دن بھر اجاڑ کمروں میں
وسیع گھر میں تجرد بھی بے گھری ہی تو ہے

سنو محبت کے صاف منکر

سنو محبت کے صاف منکر
بجا کہا کہ کہیں نہیں ہوں
تمہارے دل کے کسی بھی گوشے میں یاد بن کر
نہیں ہوں اب میں
غبارِ ہجراں کے سلسلوں نے
وصال رُت کی تمام یادیں

Sunday 20 May 2018

نصف سے دیکھ ذرا کم نہ زیادہ آدھا

نصف سے دیکھ ذرا کم نہ زیادہ آدھا 
بانٹ لیتے ہیں محبت تجھے آدھا آدھا 
مہرباں عشق! مجھے کاٹ دیا جائے گا 
ہونے والا ہے مِرا دستِ کشادہ آدھا 
چوک میں دیکھنے والے تھے تماشہ اس کا 
جس کو غربت میں میسر تھا لبادہ آدھا 

وہ نمازوں میں دعاؤں کے وظیفوں جیسا

وہ نمازوں میں دعاؤں کے وظیفوں جیسا
میں رعایا کی طرح ہوں، وہ خلیفوں جیسا
اس کا ہر نقش ہے ازبر مجھے آیت کی طرح
اس کا ہر لمس میسر ہے صحیفوں جیسا
قہقہے کھوکھلے ہونٹوں پہ ہنسی مصنوعی
دکھ کے آزار میں ماحول لطیفوں جیسا

یہ دیا عشق کا درگاہ سے منسوب نہ کر

یہ دِیا عشق کا درگاہ سے منسوب نہ کر
ہر نیا ڈھونگ مِری چاہ سے منسوب نہ کر
لوگ اس رمز کی حالت سے کہاں واقف ہیں
اپنی ہر راہ مِری راہ سے منسوب نہ کر
قصہ گو! ساری کنیزیں نہیں ہوتیں مقتول
اس روایت کو شہنشاہ سے منسوب نہ کر

Thursday 17 May 2018

مجھے لڑتے ہوئے خود سے زمانے ہو گئے ہیں

مجھے لڑتے ہوئے خود سے زمانے ہو گئے ہیں
مِرے ہتھیار سب کے سب پرانے ہو گئے ہیں
تِرے لہجے میں کیوں اتنا تکبر آ گیا ہے 
تو کیا وافر بہت اس فصل دانے ہو گئے ہیں
وہ جن احساس باغوں شوق جگنو رقص میں تھے
کہیں کیا کن بلاؤں کے ٹھکانے ہو گئے ہیں

ہمیں خالی تماشوں میں مگن رکھا گیا ہے

ہمیں خالی تماشوں میں مگن رکھا گیا ہے
پسِ پردہ یہاں کچھ اور ہی ہوتا رہا ہے
تُلا بیٹھا ہے وہ سورج بجھانے پر تو سمجھو
چراغوں کے تصادم کا سمے سر پر کھڑا ہے
زمانوں سے روایت ہے یہی شہرِ وفا کی
کہ یہ ہر موسمِ گل میں کوئی سر مانگتا ہے

دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے

دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے 
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے 
بے تابی کچھ اور بڑھا دی ایک جھلک دکھلا دینے سے 
پیاس بجھے کیسے صحرا کی دو بوندیں برسا دینے سے 
ہنستی آنکھیں لہو رلائیں کھلتے گل چہرے مرجھائیں 
کیا پائیں بے مہر ہوائیں دل دھاگے الجھا دینے سے 

یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے

یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے 
ایک گل کا یہ سب اسرار بنایا ہوا ہے
سوچ کو سوجھ کہاں ہے کہ جو کچھ کہہ پائے
دل نے کیا کیا پسِ دیوار بنایا ہوا ہے
پیر جاتے ہیں یہ دریائے شب و روز اکثر
باغ اک سیر کو اس پار بنایا ہوا ہے

Tuesday 15 May 2018

وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گزارے ہوئے

وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گزارے ہوئے
ہمارے شعر بنے یا سخن تمہارے ہوئے
قمار خانۂ شہرِ وفا میں حوصلہ رکھ
یہاں تو جشن مناتے ہیں لوگ ہارے ہوئے
حرم تو خیر مگر بت کدے ہیں کیوں ویراں
تو کیا خدا کو صنم آشنا بھی پیارے ہوئے

بے رخی تو نے بھی کی عذر زمانہ کر کے

بے رخی تُو نے بھی کی عذرِ زمانہ کر کے
ہم بھی محفل سے اٹھ آئے ہیں بہانہ کر کے
کتنی باتیں تھیں کہ نہ کہنا تھیں وہ کہہ بھیجی ہیں
اب پشیمان ہیں قاصد کو روانہ کر کے
جانتے ہیں وہ تنک خو ہے، سو اپنا احوال
ہم سنا دیتے ہیں، اوروں کا فسانہ کر کے

Sunday 13 May 2018

کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے

کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے
تیرے جانے کا غم کیا گیا ہے
تا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ دم کیا گیا ہے
اس لیے روشنی میں ٹھنڈک ہے
کچھ چراغوں کو نم کیا گیا ہے

اداس پھولوں کی پتیوں سے بنی ہوئی ہے

اداس پھولوں کی پتیوں سے بنی ہوئی ہے 
ہماری تقدیر کاغذوں سے بنی ہوئی ہے
سکون غارت کیا ہوا ہے تمام گھر کا 
کہ ان ہواؤں کی کھڑکیوں سے بنی ہوئی ہے
چہار سو چلچلاتے عکسوں کا سلسلہ ہے 
یہ آنکھ جانے کن آئینوں سے بنی ہوئی ہے

Saturday 12 May 2018

چلے جانے کی عجلت میں

چلے جانے کی عجلت میں
دلوں پر جو گزرتی ہے مسافر کب سمجھتے ہیں 
انہیں احساس کب ہوتا ہے
زادِ رہ سمیٹیں تو کسی کا دل سمٹتا ہے 
رگوں میں خون جمتا ہے
کسی کے الوداعی ہاتھ ہلتے ہیں مگر دل ڈوب جاتا ہے

دل بضد ہے کہ اسے چھو کے سراہا جائے

دل بضد ہے کہ اسے چھو کے سراہا جائے
آنکھ کہتی ہے اسے دور سے چاہا جائے
تُو یہاں بیٹھ مرے جسم، اسے مل آؤں
یہ نہ ہو تو بھی مِرے ساتھ گناہا جائے
کیا بعید ایسی کوئی شام زمیں پر اترے
جب دِیا ٹوٹی ہوئی شب سے بیاہا جائے

روز سنتا ہوں کہ بس آج یا کل نکلے گا

روز سنتا ہوں کہ بس آج یا کل نکلے گا 
کیا کبھی میرے مسائل کا بھی حل نکلے گا
ایسے حالات میں رسی کو جلاتے نہیں دوست
بس ذرا کھینچ کے رکھو گے تو بل نکلے گا
میں جو کہتا ہوں اسے غور سے سن کمرے سے 
حبس! دیوار پہ تصویر بدل، نکلے گا

برادری کے قبیلوں سے بات چل رہی ہے

برادری کے قبیلوں سے بات چل رہی ہے
سو دشمنی پہ دلیلوں سے بات چل رہی ہے
ابھی شکار کی بابت تو کچھ نہیں سوچا
ابھی تو جنگلی چیلوں سے بات چل رہی ہے
اسے ہے ترکِ رفاقت پہ مشورہ درکار
مِری بھی کتنے وکیلوں سے بات چل رہی ہے

Wednesday 9 May 2018

جس رات وہ خوابوں کو سجانے نہیں آتے

جس رات وہ خوابوں کو سجانے نہیں آتے
اس رات مِرے ہوش ٹھکانے نہیں آتے
وِڈیو میں جو دیکھا تو وہی وقت، وہی تُو
اب کیسے کہوں، گزرے زمانے نہیں آتے
دو چار منٹ ہیں تو بہت ہیں کہ مجھے بھی
کچھ شعر ہی آتے ہیں، فسانے نہیں آتے

سخن کروں گا میں تجھ سے یہ کائنات ہٹا

سخن کروں گا میں تجھ سے، یہ کائنات ہٹا
تُو میری بات کے رَستے سے اپنی بات ہٹا
میں اس کو دیکھ بھی سکتا تھا چھو بھی سکتا تھا
جب ایک موڑ پہ میرا حجابِ ذات ہٹا
ہزار رنگ کے منظر دکھائی دیں گے تجھے
بس آفتاب کے رستے سے ایک رات ہٹا

جیسے دیکھا ہے دکھایا بھی نہیں جا سکتا

جیسے دیکھا ہے، دکھایا بھی نہیں جا سکتا
خواب کا حال سنایا بھی نہیں جا سکتا
پھینکی جاتی بھی نہیں راہ میں یادیں اس کی
اور یہ بوجھ اٹھایا بھی نہیں جا سکتا
عکس کو آنکھ سے تھاما ہے سرِ آبِ رواں
چاند پانی میں بہایا بھی نہیں جا سکتا

جمال کم سخن سے ایسا کام کیسے ہو گیا

جمالِ کم سخن سے ایسا کام کیسے ہو گیا
میں خوگرِ کلام، بے کلام کیسے ہو گیا
محبتوں کے سلسلے تمہی پہ کیسے رک گئے
مسافروں کا اس گلی قیام کیسے ہو گیا
جو خوئے احتیاط پر تمہارا اختیار ہے
تو روئے بے نیاز لالہ فام کیسے ہو گیا

محل سے شاہ نے دیکھا ہی تھا جلال سمیت

محل سے شاہ نے دیکھا ہی تھا جلال سمیت
ہجوم سہم گیا اپنے اشتعال سمیت
یہ گورکن نے کہا لے کے آخری ہچکی
اتار دینا مجھے قبر میں کدال سمیت
برہنہ جسم کھڑی ہے ندی میں شہزادی
لباس لے گئے بندر اٹھا کے شال سمیت

چمن پہ جو بھی تھے نافذ اصول اس کے تھے

چمن پہ جو بھی تھے نافذ اصول اس کے تھے
تمام کانٹے ہمارے تھے، پھول اس کے تھے
جہاں بھی جاتا وہاں اس کی بادشاہی تھی
تمام سمتیں سبھی عرض و طول اس کے تھے
میں احتجاج بھی کرتا تو کس طرح کرتا
نگر میں فیصلے سب کو قبول اس کے تھے

کسی کے جبر کا دل میں خیال کیا کرتا

کسی کے جبر کا دل میں خیال کیا کرتا
تمام شہر تھا دشمن، بلال کیا کرتا
برس رہے تھے خلاؤں سے آتشیں نیزے
بدن پہ اوڑھ کے کاغذ کی ڈھال کیا کرتا
نگر کے سارے پرندے ہی پر شِکستہ تھے
میں نصب کر کے فضاؤں میں جال کیا کرتا

بک گئی دیوار تو پھر در کا سودا کر دیا

بِک گئی دیوار تو پھر دَر کا سودا کر دیا
رفتہ رفتہ اس نے سارے گھر کا سودا کر دیا
اپنے اپنے نام کی باہر لگا کر تختیاں
باغیوں نے شہر کے اندر کا سودا کر دیا
خیمۂ دشمن میں اپنی جاں بخشی کے لیے
اک سپہ سالار نے لشکر کا سودا کر دیا

کوئی جل میں خوش ہے کوئی جال میں

کوئی جل میں خوش ہے کوئی جال میں 
مست ہیں سب اپنے اپنے حال میں 
جادۂ شمشیر ہو یا فرشِ گل 
فرق کب آیا ہماری چال میں 
ایک آنسو سے کمی آ جائے گی 
غالباً دریاؤں کے اقبال میں 

اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے

اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے
لنگر سے روٹی لیتے ہیں، پانی سبیل سے
دنیا کا کوئی داغ مرے دل پہ کیا لگے
مانگا نہ اک درہم بھی کبھی اس بخیل سے
کیا بوریا نشیں کو ہوس تخت و تاج کی
کیا خاک آشنا کو غرض اسپ و فیل سے

کسی کا دھیان مہ نیم ماہ میں آیا

کسی کا دھیان مہِ نیم ماہ میں آیا 
سفر کی رات تھی اور خواب راہ میں آیا 
طلوعِ ساعتِ شبخوں ہے اور میرا دل 
کسی ستارۂ بد کی نگاہ میں آیا 
مہ و ستارہ سے دل کی طرف چلا وہ جواں 
عدو کی قید سے اپنی سپاہ میں آیا 

Monday 7 May 2018

کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ​

لہو کا سراغ​ 

کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ 
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں 
نہ سرخئ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سِناں 
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ 
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ 

تم اپنی کرنی کر گزرو

تم اپنی کرنی کر گزرو

اب کیوں اس دن کا ذکر کرو 
جب دل ٹکڑے ہو جائے گا 
اور سارے غم مٹ جائیں گے 
جو کچھ پایا کھو جائے گا 
جو مل نہ سکا وہ پائیں گے 

غم نہ کر غم نہ کر

غم نہ کر، غم نہ کر

درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا
غم نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا
غم نہ کر، غم نہ کر

حذر کرو مرے تن سے

حذر کرو مِرے تن سے

سجے تو کیسے سجے قتل عام کا میلہ 
کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا 
مِرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے 
چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے 
نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے 

Saturday 5 May 2018

نقص نکلیں گے ماہ کامل میں​

نقص نکلیں گے ماہِ کامل میں​
وہ اگر آ گئے مقابل میں​
فرطِ شوخی سے وہ نظر نہ پڑے​
آۓ بھی، اور نہ آئے محفل میں​
ہو جو ہمت تو سب کچھ آساں ہو​
دِقتیں ہیں جو کارِ مشکل میں​

وہ تغافل شعار میں بے تاب

اس کے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب 
وہ تغافل شعار میں بے تاب 
واجب القتل ہے دلِ بے تاب 
کشتہ ہونا ہی خوب ہے سیماب 
ابر کی تیرگی میں ہم کو تو 
سوجھتا کچھ نہیں سوائے شراب 

ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے

ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے 
وہ بولے کہ پھر سر پھرانے لگے 
کہا تھا، اٹھا پردۂ شرم کو 
وہ الٹا ہمیں کو اٹھانے لگے 
ذرا دیکھیے ان کی صنّاعیاں 
مجھے دیکھ کر منہ بنانے لگے 

ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے

ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے
تیز تر چلتے ہیں وہ تلوار سے
گالیاں دے کر نکالا بزم سے
لو وظیفہ مل گیا سرکار سے
قیمتِ دل تو کہاں گر مفت دوں
تو بھی وہ لیتے ہیں سو تکرار سے

Friday 4 May 2018

میرے سنگ مزار پر فرہاد

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد
ہم سے بِن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد
آنکھیں مُوند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد

اب جو اک حسرت جوانی ہے

اب جو اک حسرتِ جوانی ہے 
عمرِ رفتہ کی یہ نشانی ہے 
رشکِ یوسف ہے آہ وقت عزیز 
عمر اک بار کاروانی ہے 
گریہ ہر وقت کا نہیں بے ہیچ 
دل میں کوئی غم نہانی ہے 

دل جو ناگاہ بے قرار ہوا

دل جو ناگاہ بے قرار ہُوا 
اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا 
شب کا پہنا جو دن تلک ہے مگر 
ہار اس کے گلے کا ہار ہوا 
گرد سر اس کے جو پھِرا میں بہت 
رفتہ رفتہ مجھے دوار ہوا 

گل کو محبوب ہم قیاس کیا

گُل کو محبوب ہم قیاس کِیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا
دل نے ہم کو مثالِ آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا
کچھ نہیں سُوجھتا ہمیں اس بِن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا

Thursday 3 May 2018

تاخیر آج دفتر میں دیر مجھ کو ہوئی

تاخیر

آج دفتر میں دیر مجھ کو ہوئی 
سر کھپایا ہے فائلوں میں بہت 
‏کیوں الجھتی ہو ناگہاں مجھ سے
میری جاں مجھ میں اب نہیں ہے سکت
پھر کبھی میری خامشی پر تم 
طیش کھانا، ملال کر لینا

Tuesday 1 May 2018

وہ وقت یقیناً آئے گا

یوم مئی کی مناسبت سے تنویر سپرا کی ایک نظم

وہ وقت یقیناً آۓ گا
وہ وقت یقیناً آۓ گا
وہ وقت یقیناً آۓ گا
جب دہقانوں کے کنبے خالی پیٹ نا مرنے پائیں گے
جب محنت کش کی محنت کا پھل اس کے بچے کھائیں گے