ہمیں خالی تماشوں میں مگن رکھا گیا ہے
پسِ پردہ یہاں کچھ اور ہی ہوتا رہا ہے
تُلا بیٹھا ہے وہ سورج بجھانے پر تو سمجھو
چراغوں کے تصادم کا سمے سر پر کھڑا ہے
زمانوں سے روایت ہے یہی شہرِ وفا کی
کٹے ہاتھوں رقم ہوتی ہوئی تاریخ دیکھو
ہمارا حوصلہ دشمن کے سپنوں سے بڑا ہے
سب ایسے مل کے اس پر سنگباری کر رہے ہیں
کہ اک اس کے سوا ہر شخص جیسے پارسا ہے
حقیقت کھل رہے گی مصلحت کے فیصلوں کی
زمانہ سب عیاں کر دے گا جو کھوٹا کھرا ہے
جہاں بھر کی بلاؤں سے کہاں ممکن تھا عالی
زمیں زادہ خود اپنے ساتھ جو کچھ کر چکا ہے
جلیل عالی
No comments:
Post a Comment