Saturday, 5 May 2018

ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے

ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے
تیز تر چلتے ہیں وہ تلوار سے
گالیاں دے کر نکالا بزم سے
لو وظیفہ مل گیا سرکار سے
قیمتِ دل تو کہاں گر مفت دوں
تو بھی وہ لیتے ہیں سو تکرار سے
اپنے شکوہ میں نہ کھلواؤ زباں
خوں ٹپکتا ہے لبِ اظہار سے
لن ترانی کچھ نہیں نفی ابد
چھیڑ ہے اک طالبِ دیدار سے
آرزوئے قتل میں مرنا پڑا
رہ گیا شکوہ تِری تلوار سے
چین سے وہ لوگ کرتے ہیں بسر
جو الگ ہیں کافر و دیندار سے
ہے یہی عاشق فریبی کی ادا
آنکھ اٹھا کر دیکھ لینا پیار سے
ضد ہے یہ صیاد کو میرا قفس
پھیر لاتا ہے درِ گلزار سے
آؤ اور مجروؔح کی دیکھو غزل
شوق تم کو ہے اگر اشعار سے​

میر مہدی مجروح

No comments:

Post a Comment