Wednesday, 9 May 2018

کوئی جل میں خوش ہے کوئی جال میں

کوئی جل میں خوش ہے کوئی جال میں 
مست ہیں سب اپنے اپنے حال میں 
جادۂ شمشیر ہو یا فرشِ گل 
فرق کب آیا ہماری چال میں 
ایک آنسو سے کمی آ جائے گی 
غالباً دریاؤں کے اقبال میں 
شعلۂ صد رنگ کی سی کیفیت 
تجھ میں ہے یا تیرے خدوخال میں 
ایک لمحہ میرا یارِ غار ہے 
اس مصیبت گاہِ ماہ و سال میں 
یہ جو میرے جی کو چین آتا نہیں 
ہند میں، ایران میں، بنگال میں 
روز کا رونا لگا ہے اپنے ساتھ 
ہم نے آنکھیں باندھ لیں رومال میں 
دیدہ و دل نے کِیا ہے کام بند 
ٹھپ ہے کاروبار اس ہڑتال میں 
اس نگاہِ ناز کی ایک ایک بات 
ہے ہمارے پیر کے اقوال میں 
دل پہ سایہ ہے کسی سلطان کا 
ورنہ کیا رکھا ہے اس کنگال میں

احمد جاوید

No comments:

Post a Comment