اداس پھولوں کی پتیوں سے بنی ہوئی ہے
ہماری تقدیر کاغذوں سے بنی ہوئی ہے
سکون غارت کیا ہوا ہے تمام گھر کا
کہ ان ہواؤں کی کھڑکیوں سے بنی ہوئی ہے
چہار سو چلچلاتے عکسوں کا سلسلہ ہے
سفر کے دوران کیسی خوشبو ہے پانیوں میں
یہ کشتی صندل کی لکڑیوں سے بنی ہوئی ہے
ترے بدن کی مہک سے جنگل مہک اٹھے ہیں
تُو کن گلابوں، چمبیلیوں سے بنی ہوئی ہے
اسے جلاتے ہوئے میرے ہاتھ بجھ چلے ہیں
یہ موم بتی جو پتھروں سے بنی ہوئی ہے
اچھلتی پھرتی ہیں خواہشیں میرے دل کے اندر
تمام صحرا کی ہرنیوں سے بنی ہوئی ہے
وگرنہ تاریکیوں کا ڈر ہم کو مار دیتا
یہ رات قصے کہانیوں سے بنی ہوئی ہے
تہذیب حافی
No comments:
Post a Comment