Friday, 4 May 2018

میرے سنگ مزار پر فرہاد

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد
ہم سے بِن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد
آنکھیں مُوند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد
فکرِ تعمیر میں نہ رہ منعم
زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد
لگتی ہے کچھ سموم سی تُو نسیم
خاک کس دل جلے کی کی برباد
بھولا جائے ہے غمِ بُتاں میں جی
غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد
تیرے قیدِ قفس کا کیا شکوہ
نالہ اپنے سے، اپنے سے فریاد
ہر طرف ہیں اسیر ہم آواز
باغ ہے گھر تِرا تو اے صیاد
ایسا ہرزہ ہے وہ کہ اٹھتے صبح
سو جگہ جانا اس کی ہے معتاد
خوب ہے خاک سے بزرگاں کی
چاہنا تو مِرے تئیں امداد
پر مروت کہاں اسے اے میرؔ
تُو ہی مجھ دل جلے کو کر ناشاد
نامرادی ہو جس پہ پروانہ
وہ جلاتا پھِرے چراغِ مراد

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment