دل بضد ہے کہ اسے چھو کے سراہا جائے
آنکھ کہتی ہے اسے دور سے چاہا جائے
تُو یہاں بیٹھ مرے جسم، اسے مل آؤں
یہ نہ ہو تو بھی مِرے ساتھ گناہا جائے
کیا بعید ایسی کوئی شام زمیں پر اترے
جس طرح بھی ہو مِرے دل سے نکالو اس کو
یہ نہ ہو عشق میرے ساتھ نکاحا جائے
میں محبت کے خرابے سے نکل آیا ہوں
اب کسی موڑ پہ بھی مجھ کو نہ چاہا جائے
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment