سخن کروں گا میں تجھ سے، یہ کائنات ہٹا
تُو میری بات کے رَستے سے اپنی بات ہٹا
میں اس کو دیکھ بھی سکتا تھا چھو بھی سکتا تھا
جب ایک موڑ پہ میرا حجابِ ذات ہٹا
ہزار رنگ کے منظر دکھائی دیں گے تجھے
تمام کھیل کا انجام جانتا ہوں میں
یہاں بساط تُو رکھ دے، یہ جیت مات ہٹا
وہ لڑکھڑایا، جھکا اور گر کے ٹوٹ گیا
جونہی پہاڑ کے شانے سے میرا ہاتھ ہٹا
بہت عجب سفر ہے یہ زندگی کا سفر
کسی کی نفرتیں رکھ لے، کچھ التفات ہٹا
چلا بھی آ کہ فقیروں کے دل کشادہ ہیں
سب احتیاط پرے رکھ، تکلفات ہٹا
وہ شہرِ حسن کا حاکم بھی آئے گا نیرؔ
تُو پہلے دل کی سڑک سے تجاوزات ہٹا
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment