اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں
خود کو ہم گردشِ آفات میں ڈالے ہوئے ہیں
ہیں تو آباد، مگر در بدری کی زد پر
وہ بھی میری ہی طرح گھر سے نکالے ہوئے ہیں
اپنی رفتار سے آگے بھی نکل سکتا ہوں
اب کسی باب سماعت پہ نہ دستک دیں گے
دفن صحرا کی فضاؤں میں جو نالے ہوئے ہیں
سرخرو جو ہے وہ میرا کوئی ہمزاد ہے کیا
نوکِ نیزہ پہ وہ سر کس کا اچھالے ہوئے ہیں
ان کے شانے ہیں ہر اک بارِ گراں سے خالی
اب وہ دستار نہیں سر کو سنبھالے ہوئے ہیں
اس کی خوشبو سے طلسمات کا در کھلنے لگا
دیدہ و دل قد و گیسو کے حوالے ہوئے ہیں
ارمان نجمی
No comments:
Post a Comment