جس رات وہ خوابوں کو سجانے نہیں آتے
اس رات مِرے ہوش ٹھکانے نہیں آتے
وِڈیو میں جو دیکھا تو وہی وقت، وہی تُو
اب کیسے کہوں، گزرے زمانے نہیں آتے
دو چار منٹ ہیں تو بہت ہیں کہ مجھے بھی
بیڈ روم میں آنے نہیں دیتا تھا میں صبحیں
اب مجھ کو پرندے بھی جگانے نہیں آتے
اے حرصِ زر و سِیم اسی جا سے پلٹ جا
ہم رائیگاں جاتے ہیں، کمانے نہیں آتے
ہائے! وہ اداسی کا سبب پوچھ رہا ہے
اور مجھ کو بہانے بھی بنانے نہیں آتے
اے جانِ سحر! آپ ہی کِھل جاتے ہیں غنچے
ہم لوگ تجھے زخم دِکھانے نہیں آتے
اب مان منانے کا گیا، مان گیا میں
تم روٹھنے آتے ہو، منانے نہیں آتے
ذروں سے پتا پوچھنے آتے ہیں کسی کا
ہم دشت میں بھی خاک اڑانے نہیں آتے
گِر جاؤں تو اس ضد میں پڑا رہتا ہوں نیرؔ
کیوں مجھ کو مِرے یار اٹھانے نہیں آتے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment