Wednesday 31 October 2012

بدل گیا ہے وہ فرسودہ عاشقی کا نظام

بدل گیا ہے وہ فرسودہ عاشقی کا نظام
چنا ہے مجھ کو نئے عاشقوں نے اپنا اِمام
جہاں سے سیکھ کے آتے ہیں گفتگو دریا
وہیں سے مجھ پہ اتارا گیا یہ درد کلام
کھلا مِلا تھا وہ آنکھوں کا مے کدہ شب بھر
نہ پوچھ کیسے چڑھاۓ ہیں ہم نے جام پہ جام

وہ اس زمین پہ رہتی تھی آسماں کی طرح

وہ اس زمین پہ رہتی تھی آسماں کی طرح
کوئی نہیں ہے یہاں آج میری ماں کی طرح
اب آنسوؤں کی کتابیں کبھی نہ لِکھوں گا
کہ ڈال دی ہے نئی نالہ و فغاں کی طرح
اسی کے دَم سے یہ مٹی کا گھر منور تھا
وہ جس کی قبر چمکتی ہے کہکشاں کی طرح

سوال ایک تھا لیکن ملے جواب بہت

سوال ایک تھا، لیکن مِلے جواب بہت
پڑھی ہے میں نے محبت کی یہ کتاب بہت
گئی بہار تو پھر کون حال پوچھے گا
کرو نہ چاہنے والوں سے اِجتناب بہت
یہ آسمان و زمیں سب تمہیں مبارک ہوں
مرے لیے ہے یہ ٹوٹا ہوا رباب بہت

ان نگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے

ان نِگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے
تب کہیں گِیت کا آغاز کیا ہے میں نے
ختم ہو تاکہ ستاروں کی اجارہ داری
خاک کو مائلِ پرواز کیا ہے میں نے
آپ کو اِک نئی خِفت سے بچانے کے لیے
چاندنی کو نظر انداز کیا ہے میں نے

Monday 29 October 2012

وہ مرے دل کا حال کیا جانے

وہ مِرے دل کا حال کیا جانے
سوزِ رنج و ملال کیا جانے
ہر قدم فتنہ ہے، قیامت ہے
آسماں تیری چال کیا جانے
صبر کو سب کمال کہتے ہیں
عاشقی یہ کمال کیا جانے

کس کو دیکھا ہے یہ ہوا کیا ہے

کِس کو دیکھا ہے، یہ ہُوا کیا ہے
دِل دھڑکتا ہے، ماجرا کیا ہے
اِک محبت تھی، مِٹ چُکی یاربّ
تیری دُنیا میں اب دھرا کیا ہے
دل میں لیتا ہے چُٹکیاں کوئی
ہائے، اِس درد کی دوا کیا ہے

ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے

ان رَس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے
دو زہر کے پیالوں پہ قضا کھیل رہی ہے
ہیں نرگس و گُل کِس لئے مسحُورِ تماشا
گُلشن میں کوئی شوخ ادا کھیل رہی ہے
اس بزم میں جائیں تو یہ کہتی ہیں ادائیں
کیوں آئے ہو، کیا سر پہ قضا کھیل رہی ہے

مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر پیاری چلی جاؤ گی کیا

پیاری چلی جاؤ گی کیا

مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر پیاری چلی جاؤ گی کیا
میری نگاہِ شوق کو فُرقت میں ترساؤ گی کیا
اُف حشرتک یہ چاند سی صورت نہ دِکھلاؤ گی کیا
اور پھر نہیں آؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا

جو بہاروں میں نہاں رنگ خزاں دیکھتے ہیں

جو بہاروں میں نِہاں رنگِ خزاں دیکھتے ہیں
دیدۂ دل سے وہی سیرِ جہاں دیکھتے ہیں
ایک پردہ ہے غموں کا، جسے کہتے ہیں خوشی
ہم تبسم میں نہاں، اشکِ رواں دیکھتے ہیں
دیکھتے دیکھتے کیا رنگ جہاں نے بدلے
دیدۂ اشک سے نیرنگِ جہاں دیکھتے ہیں

عید آئی آ کہ ساقی عید کا ساماں کریں

عید آئی، آ کہ ساقی! عید کا ساماں کریں
دن ہے قُربانی کا، ہم بھی توبہ کو قُرباں کریں
مۓ کدے کے بام پر چڑھ کر اذانِ شوق دیں
مست ہیں، یوں پیروئ شیوۂ ایماں کریں
انجم و گُل سے کریں آراستہ بزمِ طرب
ساغرِ ناپید کو اس بزم میں رقصاں کریں

Sunday 21 October 2012

تن کی سوکھی دھرتی پر جب نام لکھا تنہائی کا

تن کی سُوکھی دھرتی پر جب نام لِکھا تنہائی کا
بن کی پیاس بُجھانے آیا اِک دریا تنہائی کا
سب پہچانیں قائم رکھنا ہرگز آساں کام نہ تھا
درد نے جب جب کروٹ بدلی، در کھولا تنہائی کا
خواب جزیرے کھوجتے کھوجتے پہنچا ہوں اس حالت کو
ورنہ عادت سے تو نہیں تھا، میں رَسیا تنہائی کا

پھولوں رنگوں خوشبوؤں کی باتیں کرنے سے

پھولوں رنگوں خوشبوؤں کی باتیں کرنے سے
جی کا روگ کہاں جاتا ہے، ہنستے رہنے سے
آ ہی گئی ہے لب پر تو اب ٹال مٹول نہ کر
اور بھی کچھ دُکھ بڑھ جائے گا بات بدلنے سے
بڑھ جاتا ہے اور بھی کچھ کچھ تنہائی کا روگ
وقت اگرچہ کٹ جاتا ہے، چلتے رہنے سے

ترک الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے

ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
اُس کی خواہش ہے تو یہ بات بھلا دی جائے
رات سر پر ہے کٹھن راستہ، مسافر تم کو
لوٹ آنے کی، یا منزل کی دعا دی جائے
خُود وہ آئے گا سرِ بام جو آنا ہو گا
اُس کے دروازے پہ دستک نہ صدا دی جائے

اک بجھ گیا اک اور دیا لے کے آ گئی

اِک بُجھ گیا اِک اور دِیا لے کے آ گئی
مِلنے کی آس کچا گھڑا لے کے آ گئی
کِن منزلوں کو شوقِ مسافت میں کھو دیا
کِن راستوں پہ لغزشِ پا لے کے آ گئی
ٹِک کر نہ بیٹھ پائے اسیرانِ رنگ و بُو
خواہش، فریبِ آب و ہوا لے کے آ گئی

طواف شہر ناپُرساں میں اپنا دن گُزرتا ہے

طوافِ شہر ناپُرساں میں اپنا دن گُزرتا ہے
کہیں دیوار آتی ہے، نہ کوئی دَر نکلتا ہے
مگر اِک فاصلہ اوّل سے آخر تک برابر ہے
نہ ہم منزل بدلتے ہیں، نہ وہ رَستہ بدلتا ہے
ہماری بیشتر باتیں، فقط محدود ہم تک ہیں
گُزر جاتی ہے جب اِک عمر، تب یہ بھید کُھلتا ہے

Friday 12 October 2012

بہار نام کی ہے کام کی بہار نہیں

بہار نام کی ہے، کام کی بہار نہیں
کہ دستِ شوق کسی کے گلے کا ہار نہیں
رہے گی یاد اُنہیں بھی، مُجھے بھی، وصل کی رات
کہ اُن سا شوخ نہیں، مُجھ سا بے قرار نہیں
سحر بھی ہوتی ہے چلتے ہیں اے اجل ہم بھی
اب اُن کے آنے کا ہم کو بھی اِنتظار نہیں

اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے

اے دل وہ عاشقی کے فسانے کِدھر گئے
وہ عُمر کیا ہوئی، وہ زمانے کِدھر گئے
تھے وہ بھی کیا زمانے کہ رہتے تھے ساتھ ہم
وہ دن کہاں ہیں، اب وہ زمانے کِدھر گئے
ہے نجد میں سکوت، ہواؤں کو کیا ہُوا
لیلائیں ہیں خموش، دِوانے کِدھر گئے

کافر بنوں گا کفر کا ساماں تو کیجئے

کافر بنُوں گا، کُفر کا ساماں تو کیجئے
پہلے گھنیری زُلف پریشاں تو کیجئے
اس نازِ ہوش کو کہ ہے موسیٰؑ پہ طعنہ زن
اِک دن نقاب اُلٹ کے پشیماں تو کیجئے
عُشّاق، بندگانِ خُدا ہیں، خُدا نہیں
تھوڑا سا نرخِ حُسن کو ارزاں تو کیجئے

نور رگوں میں دوڑ جائے پردۂ دل جلا تو دو

نُور رگوں میں دوڑ جائے، پردۂ دل جلا تو دو
دیکھنا رقص پھر مرا، پہلے نقاب اُٹھا تو دو
رنگ ہے زرد کیوں مرا، حال ہے غیر کس لیے
ہو جو بڑے ادا شناس، اِس کا سبب بتا تو دو
میرے مکاں میں تُم مکیں، میں ہوں ‌مکاں سے بے خبر
ڈھونڈ ہی لوں گا میں تُمہیں، مُجھ کو مرا پتا تو دو

شام غم کی نہیں سحر شاید

شامِ غم کی نہیں سحر شاید
یونہی تڑپیں گے عُمر بھر شاید
حالِ دل سے مِرے ہیں سب واقف
صرف تُو ہی ہے بے خبر شاید
روز دیدار تیرا کرتا ہوں
تجھ کو حیرت ہو جان کر شاید

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا

مِلا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا 
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا 
یہی تو ہیں دو ستُونِ مُحکم ان ہی پہ قائم ہے نظمِ عالم 
یہ ہی تو ہے رازِ خُلد و آدمؑ، نگاہ میری، شباب تیرا 
صبا تصدّق ترے نفس پر، چمن تیرے پیرہن پہ قرباں
شمیمِ دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا 

گلشن کی تباہی کا الم کم تو نہیں ہے

گلشن کی تباہی کا اَلم کم تو نہیں ہے
دل خوں ہے مگر فرصتِ ماتم تو نہیں ہے
ڈر یہ ہے کہ مانوس نہ ہو جاؤں خزاں سے
معلوم ہے پھولوں کا یہ موسم تو نہیں ہے
یہ سچ ہے کہ ہر غم کو بھلا دے گا زمانہ
لیکن یہ کسی زخم کا مرہم تو نہیں ہے

میں‌ اس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا

امی جان


میں‌ اِس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا

عدیلؔ ماں کی جگہ کوئی ہو نہیں‌ سکتا

مِرے خدا! یہاں درکار ہے مسیحائی

میں اپنے خُون کو اشکوں سے دھو نہیں سکتا

یہ اور بات ہے ہو جائے معجزہ کوئی

یہ غم خُوشی میں بدل جائے، ہو نہیں سکتا

رونقیں گھر میں رہیں بس اسی آواز کے ساتھ

ہم، امی اور تنہائی


رونقیں گھر میں رہیں بس اُسی آواز کے ساتھ

گو تھیں تکلیف میں‌ لیکن رہیں اعجاز کے ساتھ

بے غرض مِلتی رہیں ماں کی دُعائیں ہر دم

لوگ آواز لگاتے نہیں آواز کے ساتھ

وقتِ رُخصت بڑی رونق تھی، سو آیا یہ خیال

کون آئے گا یہاں اب مِری پرواز کے ساتھ؟

خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں

خبر تھی گھر سے وہ نِکلا ہے مِینہ برستے میں
تمام شہر لیے چھتریاں تھا رَستے میں
بہار آئی تو اِک شخص یاد آیا بہت
کہ جس کے ہونٹوں سے جَھڑتے تھے پُھول ہنستے میں
کہاں کے مکتب و مُلّا، کہاں کے درس و نصاب
بس اِک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں 

جانے نشے میں کہ وہ آفت جاں خواب میں تھا

جانے نشّے میں کہ وہ آفتِ جاں خواب میں تھا
جیسے اِک فتنہ بیدار، رواں خواب میں تھا
وہ سرِ شام، سمندر کا کنارا، تِرا ساتھ
اب تو لگتا ہے کہ جیسے یہ سماں خواب میں تھا
جیسے یادوں کا دریچہ کوئی وا رہ جائے
اِک سِتارہ مِری جانب نِگراں خواب میں تھا

Saturday 6 October 2012

بتان مہ وش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں

بُتانِ مہ وَش، اُجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں
کہ جِس کی جان جاتی ہے اُسی کے دل میں رہتے ہیں
ہزاروں حسرتیں وہ ہیں کہ روکے سے نہیں رُکتیں
بہت ارمان ایسے ہیں کہ دل کے دل میں رہتے ہیں
خُدا رکھے محبت کے لئے آباد دونوں گھر
میں اُن کے دل میں رہتا ہوں، وہ میرے دل میں رہتے ہیں

دوستو یوں بھی نہ رکھو خم و پیمانہ کھلے

دوستو! یُوں بھی نہ رکھو خُم و پیمانہ کُھلے
چند ہی روز ہوئے ہیں ابھی مئے خانہ کُھلے
اِک ذرا رنگ پہ آئے تو سہی جوشِ بہار
اِک ذرا ڈھنگ کا موسم ہو تو دیوانہ کُھلے
جِس کے ہِجراں میں کتابوں پہ کتابیں لِکھ دیں
اُس پہ گر حال ہمارا نہیں کُھلتا، نہ کُھلے

بول ہوا اس پار زمانے کیسے ہیں

بول ہوا! اُس پار زمانے کیسے ہیں
اُجڑے شہر میں یار پُرانے کیسے ہیں
چاند اُترتا ہے اب کِس کِس آنگن میں
کِرنوں سے مِحرُوم گھرانے کیسے ہیں
لب بستہ دروازوں پر کیا بِیت گئی
گلیوں سے منسُوب افسانے کیسے ہیں

گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی

گِلہ

گِلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی
مگر وہ برگ کہ ٹُوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے
مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے
مگر وہ خواب کہ بِکھرے تو بے نشاں ٹھہرے
مگر وہ ہاتھ کہ بِچھڑے تو استخواں ٹھہرے
گِلہ ہوا سے نہیں، تُندیٔ ہوا سے نہیں

کل شب دل آوارہ کو سینے سے نِکالا

کل شب دلِ آوارہ کو سِینے سے نِکالا
یہ آخری کافر بھی مدِینے سے نِکالا
یہ بِھیڑ نکلتی تھی کہاں خانۂ دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرِینے سے نِکالا
ہم خون بہا کر بھی ہوئے باغ میں رُسوا
اس گُل نے مگر کام پسِینے سے نِکالا

ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں

ہوا کے واسطے اِک کام چھوڑ آیا ہوں
دِیا جلا کے سرِ شام چھوڑ آیا ہوں
امانتِ سحر و شام چھوڑ آیا ہوں
کہیں چراغ، کہیں جام چھوڑ آیا ہوں
کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو تیرے نام چھوڑ آیا ہوں

Thursday 4 October 2012

کسی کے لمس سے پہلے بدن غبار کیا

کسی کے لَمس سے پہلے بدن غبار کیا
پھر اس کے بعد جنوں کی ندی کو پار کیا
انہیں بگاڑ دیا جو صفوں کے ربط میں تھیں
جو چیزیں بکھری ہوئی تھیں انہیں قطار کیا
بنی تھیں پردۂ جاں پر ہزارہا شکلیں
خبر نہیں کسے چھوڑا، کسے شمار کیا