Wednesday 31 October 2012

ان نگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے

ان نِگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے
تب کہیں گِیت کا آغاز کیا ہے میں نے
ختم ہو تاکہ ستاروں کی اجارہ داری
خاک کو مائلِ پرواز کیا ہے میں نے
آپ کو اِک نئی خِفت سے بچانے کے لیے
چاندنی کو نظر انداز کیا ہے میں نے
آسمانوں کی طرف اور نہیں دیکھوں گا
اِک نئے دور کا آغاز کیا ہے میں نے
روٹھے لوگوں کو منانے میں مزہ آتا ہے
جان کر آپ کو ناراض کیا ہے میں نے
تم مجھے چھوڑ کے اِس طرح نہیں جا سکتے
اس تعلق پہ بہت ناز کیا ہے میں نے
وہ جو صدیوں سے یہاں بند پڑا تھا دیکھو
شاعری کا وہی دَر، باز کیا ہے میں نے
سن کے مبہوت ہوئی جاتی ہے دنیا ساری
شعر لِکھّے ہیں کہ اعجاز کیا ہے میں نے
عشق میں نام کمانا کوئی آسان نہ تھا
سارے احباب کو ناراض کیا ہے میں نے
صرف لوگوں کو بتانے سے تسلّی نہ ہوئی
چاند تاروں کو بھی ہمراز کیا ہے میں نے
اور بھی ہوں گے کئی چاہنے والے، لیکن
آپ کے نام کو ممتاز کیا ہے میں نے
آسمانوں سے پرے کرتا ہے اب جا کے شکار
طائرِ دل کو وہ شہباز کیا ہے میں نے
شاعروں سے جو ترے بعد کبھی ہو نہ سکا
کام وہ حافظِ شیراز کیا ہے میں نے

احمد فواد

No comments:

Post a Comment