Monday, 29 October 2012

مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر پیاری چلی جاؤ گی کیا

پیاری چلی جاؤ گی کیا

مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر پیاری چلی جاؤ گی کیا
میری نگاہِ شوق کو فُرقت میں ترساؤ گی کیا
اُف حشرتک یہ چاند سی صورت نہ دِکھلاؤ گی کیا
اور پھر نہیں آؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا

کیا جنتِ دیدار سے محروم ہو جاؤں گا میں
اس محشرِ انوار سے محروم ہو جاؤں گا میں
ہاں کیا تمہارے پیار سے محروم ہو جاؤں گا میں
اُف یہ ستم ڈھاؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا

کیا سن رہا ہوں آہ میں دشمن کے گھر جاؤ گی تم
اور اس قفس سے پھر رہا ہونے نہیں پاؤ گی تم
میری تسلی کے لیے واپس نہیں آؤ گی تم
سچ مُچ نہیں آؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا

کیا یہ وفا ہے، بے وفا، ایسی وفا ہوتی ہے کیا
دنیا میں رسمِ وعدہ اب یونہی ادا ہوتی ہے کیا
یہ ہے وفا تو وہ جو اِک شے ہے، وفا ہوتی ہے کیا
دل میں نہ شرماؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا

کس کو خبر تھی، آسماں آتش فشاں ہو جائے گا
فردوس زارِ آرزو ، نذرِ خزاں ہو جائے گا
اور یہ گلِ طلعت نصیب ِ دشمناں ہو جائے گا
دشمن کی ہو جاؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا

تم جس کی قسمت میں ہو وہ فرخندہ اختر کون ہے
کہہ دو تمہارے عشق میں وہ میرا ہمسر کون ہے
وہ میرا دُشمن لیکن اب ، میرا مقدر کون ہے
مجھ کو نہ بتلاؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا

تم سے گِلہ، لیکن نہیں اصلا نہیں، حاشا نہیں
مجبور ہو، مجبور سے کچھ جبر کا شکوہ نہیں
لیکن کروں کیا، دل کو بھی تو ضبط کا یارا نہیں
کہہ دو کہ پھر آؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment