Friday, 12 October 2012

گلشن کی تباہی کا الم کم تو نہیں ہے

گلشن کی تباہی کا اَلم کم تو نہیں ہے
دل خوں ہے مگر فرصتِ ماتم تو نہیں ہے
ڈر یہ ہے کہ مانوس نہ ہو جاؤں خزاں سے
معلوم ہے پھولوں کا یہ موسم تو نہیں ہے
یہ سچ ہے کہ ہر غم کو بھلا دے گا زمانہ
لیکن یہ کسی زخم کا مرہم تو نہیں ہے
خوش ہوں کہ میں چونکا ہوں کسی خواب سے لیکن
یا رب! یہ کسی خواب کا عالم تو نہیں ہے
پھولوں کو صبا لاکھ گلستاں میں ہنسا لے
پِھر بھی یہ علاجِ غمِ شبنم تو نہیں ہے
ڈھایا تو ہے غم نے مِرا ایوانِ تمنا
بنیاد مگر غم کی بھی محکم تو نہیں ہے
تم اس کو سمجھنا ہی نہ چاہو تو نہ سمجھو
افسانہ غمِ عشق کا مبہم تو نہیں ہے
اِظہارِ رضا لاکھ کرے حسن، مگر پِھر
دل کو ہے یہی ڈر کہ وہ برہم تو نہیں ہے
اے ہمسفرو! مجھ کو سرِ راہ بِٹھا دو
رَستہ ہی تکُوں، پاؤں میں اب دم تو نہیں ہے
سو شمع جلائیں گے اگر ایک بجھے گی
فانوسِ وفا آج بھی مدھم تو نہیں ہے
طوفانِ بلا سر سے گزرتے ہی رہے ہیں
زخمی ہے مگر آج بھی سر خم تو نہیں ہے
کیفی جو چلے گا اُسے ٹھوکر بھی لگے گی
لغزش سے بری فطرتِ آدمؑ تو نہیں ہے 

زکی کیفی
ذکی کیفی

No comments:

Post a Comment