ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
اُس کی خواہش ہے تو یہ بات بھلا دی جائے
رات سر پر ہے کٹھن راستہ، مسافر تم کو
لوٹ آنے کی، یا منزل کی دعا دی جائے
خُود وہ آئے گا سرِ بام جو آنا ہو گا
اتنے جھنجھٹ ہیں کہ مِلتی نہیں اب تو فُرصت
رسمِ دلجوئی، ہو جیسے بھی اُٹھا دی جائے
ایک ہی طرح دھڑکتا ہے، خزاں ہو کہ بہار
دل کو اِس سال کوئی سخت سزا دی جائے
منتخب لوگ ہیں خلعت سے بلند و بالا
مستحق لوگوں کو دستار و قبا دی جائے
سحرِ خاموشی کسی طرح تو ٹُوٹے عظمیؔ
اِک صدا نام پہ اپنے ہی لگا دی جائے
اسلام عظمی
No comments:
Post a Comment