Saturday, 6 October 2012

کل شب دل آوارہ کو سینے سے نِکالا

کل شب دلِ آوارہ کو سِینے سے نِکالا
یہ آخری کافر بھی مدِینے سے نِکالا
یہ بِھیڑ نکلتی تھی کہاں خانۂ دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرِینے سے نِکالا
ہم خون بہا کر بھی ہوئے باغ میں رُسوا
اس گُل نے مگر کام پسِینے سے نِکالا
ٹھہرے ہیں زر و سِیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیاہ ہم نے دفِینے سے نِکالا
یہ سوچ کے ساحل پہ سفر ختم نہ ہو جائے
باہر نہ کبھی پاؤں سفِینے سے نِکالا

اقبال ساجد

No comments:

Post a Comment