کل شب دلِ آوارہ کو سِینے سے نِکالا
یہ آخری کافر بھی مدِینے سے نِکالا
یہ بِھیڑ نکلتی تھی کہاں خانۂ دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرِینے سے نِکالا
ہم خون بہا کر بھی ہوئے باغ میں رُسوا
ٹھہرے ہیں زر و سِیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیاہ ہم نے دفِینے سے نِکالا
یہ سوچ کے ساحل پہ سفر ختم نہ ہو جائے
باہر نہ کبھی پاؤں سفِینے سے نِکالا
اقبال ساجد
No comments:
Post a Comment