Friday 12 October 2012

نور رگوں میں دوڑ جائے پردۂ دل جلا تو دو

نُور رگوں میں دوڑ جائے، پردۂ دل جلا تو دو
دیکھنا رقص پھر مرا، پہلے نقاب اُٹھا تو دو
رنگ ہے زرد کیوں مرا، حال ہے غیر کس لیے
ہو جو بڑے ادا شناس، اِس کا سبب بتا تو دو
میرے مکاں میں تُم مکیں، میں ہوں ‌مکاں سے بے خبر
ڈھونڈ ہی لوں گا میں تُمہیں، مُجھ کو مرا پتا تو دو
ہو، کہ نہ ہو مُجھے سُکون، یہ تو خُدا کو عِلم ہے
نزع میں آ کے سامنے، ناز سے مُسکرا تو دو
لُطف نہیں، جفا سہی، زیست نہیں، قضا سہی
غمزۂ ناروا سہی، عشق کا کچھ صِلہ تو دو
تُم کو غرورِ ناز ہے، تُم ہو تغافل آشنا
اچھا اگر یہ بات ہے، دل سے مُجھے بھُلا تو دو
اِس سے تُمہیں غرض نہیں، پَھلنے لگے کہ جل اُٹھے
نخلِ حیاتِ جوشؔ پر برقِ نظر گِرا تو دو

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment