Wednesday 31 October 2012

بدل گیا ہے وہ فرسودہ عاشقی کا نظام

بدل گیا ہے وہ فرسودہ عاشقی کا نظام
چنا ہے مجھ کو نئے عاشقوں نے اپنا اِمام
جہاں سے سیکھ کے آتے ہیں گفتگو دریا
وہیں سے مجھ پہ اتارا گیا یہ درد کلام
کھلا مِلا تھا وہ آنکھوں کا مے کدہ شب بھر
نہ پوچھ کیسے چڑھاۓ ہیں ہم نے جام پہ جام
نہ ڈھنگ سے کبھی عقل و خِرد کی بات سُنی
نہ اِختیار کیا ہے رہِ جنوں کو تمام
جو ترے ذِکر سے لمحوں کا پیٹ بھرتے ہیں
ان احمقوں میں نمایاں کھڑا ہے اب مرا نام
اب آ کے بات کرے ہم سے وصل کا سورج
بہت سنا ہے شبِ ہجر کا سیاہ کلام
جو دھوپ بن کے مری زندگی میں پھیل گئی
ہمیشہ دل میں رہے گا اب اس نظر کا قیام
جہاں پہ دل میں بھڑکتے تھے آگ کے شعلے
وہاں سے دور نہ تھا آنسوؤں کا صدر مقام

احمد فواد

No comments:

Post a Comment