خبر تھی گھر سے وہ نِکلا ہے مِینہ برستے میں
تمام شہر لیے چھتریاں تھا رَستے میں
بہار آئی تو اِک شخص یاد آیا بہت
کہ جس کے ہونٹوں سے جَھڑتے تھے پُھول ہنستے میں
کہاں کے مکتب و مُلّا، کہاں کے درس و نصاب
مِلا تھا ایک ہی گاہک تو ہم بھی کیا کرتے
سو خُود کو بیچ دیا بے حساب سستے میں
یہ عمر بھر کی مسافت ہے دل بڑا رکھنا
کہ لوگ مِلتے بِچھڑتے رہیں گے رَستے میں
ہر ایک درخورِ رنگ و نمُو نہیں، ورنہ
گل و گیاہ سبھی تھے صبا کے رَستے میں
ہے زہرِ عشق، خمارِ شراب آگے ہے
نشہ بڑھاتا گیا ہے یہ سانپ ڈَستے میں
جو سب سے پہلے ہی رزمِ وفا میں کام آئے
فرازؔ ہم تھے انہیں عاشقوں کے دستے میں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment