Wednesday 29 March 2017

رات کے سناٹے میں ہم نے کیا کیا دھوکے کھائے ہیں

رات کے سناٹے میں ہم نے کیا کیا دھوکے کھائے ہیں
اپنا ہی جب دل دھڑکا تو ہم سمجھے وہ آئے ہیں
بند جھروکے سونی گلیاں، یا پھر غم کے سائے ہیں
چاند ستارے نکلے ہیں لیکن میرے لیے کیا لائے ہیں
جس دن سے تم بچھڑ گئے یہ حال ہے اپنی آنکھوں کا
جیسے دو بادل ساون کے آپس میں ٹکرائے ہیں

تیری خوشبو مری سانسوں میں بسانے آئے

تیری خوشبو مری سانسوں میں بسانے آئے
دل کی دنیا میں بہاروں کے زمانے آئے
یہ الگ بات کہ تعبیر نہ دے ساتھ مرا
خواب تو جتنے بھی آئے وہ سہانے آئے
وہ ہے مغرور، مگر پیارسے مجبور بھی ہے
خود ہی ناراض کرے خود ہی منانےآئے

چمن چمن فریب رنگ و بو ہے اور کچھ نہیں

چمن چمن فریبِ رنگ و بو ہے اور کچھ نہیں
بس اک جمالِ خام چار سو ہے اور کچھ نہیں
قفس میں آشیاں کا نام سن کے مطمئن نہ ہو
یہ باغباں کا حسنِ گفتگو ہے اور کچھ نہیں
خمار ہے کہاں کہ دل کی تشنگی بجھائیے
اس انجمن میں سایۂ سبو ہے اور کچھ نہیں

دینے والے میرے دیس کی دھرتی کو خوش حالی دے

دینے والے میرے دیس کی دھرتی کو خوشحالی دے
باغوں کو پھل پھول عطا کر، کھیتوں کو ہریالی دے
مولا! مجھ کو ڈال دے اپنے درویشوں کے رستے پر
اس کا بھی میں برا نہ مانگوں جو نِت مجھ کو گالی دے
جو اپنی اولاد سے بڑھ کر سمجھے پودوں پیڑوں کو
آنے والے موسم میں اس باغ کو ایسا مالی دے

حکمراں مجھ کو بہاروں کا بنایا جائے

حکمراں مجھ کو بہاروں کا بنایا جائے
تاج کانٹوں کا مِرے سر پہ سجایا جائے
ہر کوئی اب تو گنہ گار بنا بیٹھا ہے
پارسائی کا ہنر مجھ کو سکھایا جائے
موت برحق ہے مگر میری گزارش یہ ہے
زندہ انسانوں کا جنازہ نہ اٹھایا جائے

آنکھوں میں سوال ہو گئی ہے

آنکھوں میں سوال ہو گئی ہے
اب زیست وبال ہو گئی ہے
وہ چوٹ جو دل سے بھی چھپائی
اب تیرا خیال ہو گئی ہے
نظروں پہ پھسلتی رکتی صورت
رقصِ خد و خال ہو گئی ہے

Monday 27 March 2017

عشق وہم و گماں میں رہتا ہے

عشق وہم و گماں میں رہتا ہے
میرے ہی جسم و جاں میں رہتا ہے
آپ کا حوصلہ جو ہیں دل میں
کون ٹوٹے مکاں میں رہتا ہے
آپ کو بھولے ایک عمر ہوئی
کیوں ذکر پھر بیاں میں رہتا ہے

یہ دنیا ہے ارے ناداں نہ اس کے جال میں آنا

یہ دنیا ہے ارے ناداں نہ اس کے جال میں آنا
کہا کچھ اور جاتا ہے کیا کچھ اور جاتا ہے
یہ سودا ہے نرا دھوکا نظر کا کھیل ہے سارا
دکھایا اور جاتا ہے، دیا کچھ اور جاتا ہے
ہے مانا زندگی تیری مگر مرضی نہیں تیری
سو جینا اور ہوتا ہے جیا کچھ اور جاتا ہے

روز کہنا کہ اب نہیں کرنا

روز کہنا کہ اب نہیں کرنا
روز پھر رابطہ وہیں کرنا
اپنے لکھے پہ تو عمل کرنا
ایسی غلطی نہ پھر کہیں کرنا
لاکھ یہ عقل، عقل سکھلائے
اس محبت نے کب یقیں کرنا

آپ کے غم کی دسترس میں رہے

آپ کے غم کی دسترس میں رہے
اس برس بھی اُسی برس میں رہے
جانے وہ قید یا رہائی تھی؟
اک مسیحا کے ہم قفس میں رہے
ہم کو معلوم عشق لاحاصل
پھر بھی ہم اسکی بس ہوس میں رہے

Sunday 26 March 2017

جس کی آنکھیں غزل ہر ادا شعر ہے

جس کی آنکھیں غزل ہر ادا شعر ہے
وہ مِری شاعری ہے مِرا شعر ہے
وہ حسیں زلف شب کا فسانہ لیے
وہ بدن نغمگی وہ قبا شعر ہے
وہ تکلم لہکتی ہوئی چاندنی
وہ تبسم مہکتا ہوا شعر ہے

اس شہرِ خرابی میں غم عشق کے مارے

اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں، یہی بات بڑی بات ہے پیارے
یہ ہنستا ہوا چاند، یہ پُر نُور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے
حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پُھول ہمیں دل سے پکارے

ہم کو نظروں سے گرانے والے

ہم کو نظروں سے گرانے والے
ڈھونڈ اب ناز اٹھانے والے
چھوڑ جائیں گے کچھ ایسی یادیں
روئیں گے ہم کو زمانے والے
رہ گئے نقش ہمارے باقی
مٹ گئے ہم کو مٹانے والے

ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے

تِرے ماتھے پہ جب تک بَل رہا ہے
اجالا آنکھ سے اوجھل رہا ہے
سماتے کیا نظر میں چاند تارے
تصور میں تِرا آنچل رہا ہے
تِری شانِ تغافل کو خبر کیا
کوئی تیرے لیے بے کل رہا ہے

خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے

خدا ہمارا ہے

خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے 
اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے

لہو پیو گے کہاں تک ہمارا دھنوانو 
بڑھاؤ اپنی دکاں سیم و زر کے دیوانو
نشاں کہیں نہ رہے گا تمہارا شیطانو 
ہمیں یقیں ہے کہ انسان اس کو پیارا ہے
خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے 
اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے

Saturday 25 March 2017

غنچہ و گل کا شمار سب کے لیے کیوں نہیں

غنچہ و گل کا شمار، سب کے لیے کیوں نہیں
دامنِ ابرِ بہار سب کے لیے کیوں نہیں
چشمۂ آبِ صفا تیرے تصرف میں کیوں
اے مِرے ناقہ سوار! سب کے لیے کیوں نہیں
باغ کی بنیاد میں سب کا لہو ہے تو پھر
ذائقہ برگ و بار، سب کے لیے کیوں نہیں

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے
تیری آواز جدھر لے جائے
اب یہی سوچ رہی ہیں آنکھیں
کوئی تا حدِ نظر لے جائے
منزلیں بجھ گئیں چہروں کی طرح
اب جدھر راہگزر لے جائے

ابتدائے فصل گل ہے اور حصار نغمہ ہے

ابتداۓ فصلِ گل ہے اور حصارِ نغمہ ہے
آتشِ آئندگاں کو انتظارِ نغمہ ہے
کنجِ آشفتہ سری میں رنگِ لالہ کے تئیں
لرزشِ دستِ حنائی انتشارِ نغمہ ہے
طائرانِ سرخ سے اک بات کہنی ہے مجھے
اب کہاں، کس جا پہ وہ پروردگارِ نغمہ ہے

اچھا سا کوئی سپنا دیکھو اور مجھے دیکھو

اچھا سا کوئی سپنا دیکھو اور مجھے دیکھو
جاگو تو آئینہ دیکھو اور مجھے دیکھو
سوچو یہ خاموش مسافر کیوں افسردہ ہے 
جب بھی تم دروازہ دیکھو اور مجھے دیکھو
صبح کے فرش پہ گونجا اس کا ایک سخن 
کرنوں کا گلدستہ دیکھو اور مجھے دیکھو

وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا

وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
عیسٰی کو ہو نوید کہ بیمار مرگیا
آزاد کچھ ہوئے ہیں اسیران زندگی
یعنی جمال یار کا صدقہ اتر گیا
ہاں سچ تو ہے شکایتِ زخمِ جگر غلط
دل سے گزر کے تیر تمہارا کدھر گیا

دل مایوس کو اے عہد کرم شاد نہ کر

دلِ مایوس کو اے عہدِ کرم شاد نہ کر
ناز پروردۂ غم ہے اسے برباد نہ کر
اے تقاضائے خرد مجھ پہ یہ بیداد نہ کر
میں ہوں دنیائے محبت مجھے برباد نہ کر
غمِ ہستی ہی سہی، تیرے سوا کوئی ہو
دل کہ بستی ہے تِری غیر سے آباد نہ کر

مری آنکھوں سے بہنا چاہیے دل کا لہو برسوں

مِری آنکھوں سے بہنا چاہیے دل کا لہو برسوں
رہی ہے ان کو خونِ آرزو کی آرزو برسوں
جئے جانے کی تہمت کِس سے اٹھتی، کِس طرح اٹھتی
تِرے غم نے بچائی زندگی کی آرزو برسوں
نگاہوں نے دلوں میں، دل نے آنکھوں میں تجھے ڈھونڈا
تِری دھن میں رہے سودائیانِ جستجو برسوں

بے ذوق نظر بزم تماشہ نہ رہے گی

بے ذوق نظر بزم تماشا نہ رہے گی
منہ پھیر لیا ہم نے تو دنیا نہ رہے گی 
ایذا نہ رہے گی جو گوارا نہ رہے گی 
چھیڑا مجھے دنیا نے تو دنیا نہ رہے گی 
دل لے کے یہ کیا ضد ہے کہ اب جان بھی کیوں ہو 
یہ بھی نہ رہے گی بہت اچھا نہ رہے گی 

ڈرو نہ تم کہ نہ سن لے کہیں خدا میری

ڈرو نہ تم کہ نہ سن لے کہیں خدا میری 
کہ روشناسِ اجابت نہیں دعا میری
وہ تم، کہ تم نے جفا کی تو کچھ برا نہ کِیا 
وہ میں، کہ ذکر کے قابل نہیں فغاں میری
چلے بھی آؤ، کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
سنو، کہ پھر نہ سنو گے تم التجا میری

Thursday 23 March 2017

لگ چلی باد صبا کیا کسی مستانے سے

لگ چلی بادِ صبا کیا کسی مستانے سے
جھومتی آج چلی آتی ہے مے خانے سے
چُور ہو جاؤں مگر جاؤں نہ مے خانے سے
عہد شیشے سے، تو پیمان ہے پیمانے سے
روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اوڑی جاتی ہے ساقی تِرے پیمانے سے

ان کے اک جانثار ہم بھی ہیں

ان کے اک جانثار ہم بھی ہیں
ہیں جہاں سو ہزار، ہم بھی ہیں
تم بھی بے چین، ہم بھی بے چین
تم بھی ہو بے قرار، ہم بھی ہیں
اے فلک! کہہ تو کیا ارادہ ہے
عیش کے خواست گوار ہم بھی ہیں

حسن کی تم پر حکومت ہو گئی

حسن کی تم پر حکومت ہو گئی
ضبط آنکھوں کی مروت ہو گئی
لے گئے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ دل
ہوشیاری اپنی غفلت ہو گئی
وہ جو تجھ سے دوستی کرنے لگا
مجھ کو دشمن سےمحبت ہو گئی

کیوں کہا یہ کسی سے کیا مطلب

کیوں کہا یہ کسی سے کیا مطلب
اسی کہنے سے کھل گیا مطلب
بات پوری نہیں کہی میں نے
کہ وہ طرار لے اُڑا مطلب
میں کہے جاؤں تم سنے جاؤ
ایک کے بعد دوسرا مطلب

آپ کا اعتبار کون کرے

آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے 
پر تمہیں شرمسار کون کرے
ہو جو اس چشم مست سے بے خود 
پھر اسے ہوشیار کون کرے

وہ تو سنتا ہی نہیں میں داد خواہی کیا کروں

وہ تو سنتا ہی نہیں، میں داد خواہی کیا کروں
کس کے آگے جا کے سر پھوڑوں الٰہی کیا کروں
مجھ گدا کو دے نہ تکلیف حکومت اے ہوس
چار دن کی زندگی میں بادشاہی کیا کروں
مجھ کو ساحل تک خدا پہنچائے گا اے ناخدا
اپنی کشتی کی بیاں تجھ سے تباہی کیا کروں

پرسش کو مری کون مرے گھر نہیں آتا

پرسش کو مِری کون مِرے گھر نہیں آتا
تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا
تم لاکھ قسم کھاتے ہو ملنے کی عدو سے
ایمان سے کہہ دوں مجھے باور نہیں آتا
ڈرتا ہے کہیں آپ نہ پڑ جائے بلا میں
کوچے میں تِرے فتنۂ محشر نہیں آتا

ہٹاؤ آئینہ امیدوار ہم بھی ہیں

ہٹاؤ آئینہ امیدوار ہم بھی ہیں 
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
تڑپ کے روح یہ کہتی ہے ہجر جاناں میں 
کہ تیرے ساتھ دل بے قرار ہم بھی ہیں
رہے دماغ اگر آسماں پہ دور نہیں 
کہ تیرے کوچہ میں مست غبار ہم بھی ہیں

مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے

مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے
اس شخص کو جینے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اس پیڑ کے سائے میں بھی کیوں اتنی گھٹن ہے 
ہیں سبز یہ پتے تو ہوا کیوں دیتے
جس خون میں آ جائے سفیدی کی ملاوٹ 
اس خون کو آنکھوں سے بہا کیوں نہیں دیتے

پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روئے تو

پھولوں پھولوں مہکے، لیکن شبنم شبنم روئے تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کو کھوئے تو
لوگ بہت تھے جب آئی تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوئے تو
اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لا کر کوئی بوئے تو

زباں جب خود سے بڑھ کر ہانکتی ہے

زباں جب خود سے بڑھ کر ہانکتی ہے
تو عزت اس کی مٹی پھانکتی ہے
وہ دیکھو سامنے ہے گھر ہمارا
اداسی کھڑکیوں سے جھانکتی ہے
بنا کر مجھ کو اپنا اک کھلونا
مِری قسمت مجھی کو آنکتی ہے

اسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے

اسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے
مِرے خوابوں میں کوئی جاگتا ہے
مِرے بیتے دنوں کی یاد لے کر
چلے آؤ کہ دروازہ کھلا ہے
میں اب ہر اجنبی کو جانتا ہوں 
کہ شہرِ جاں میں ہر چہرہ نیا ہے

جبر میں نے اپنی گزاری شبوں پر

جبر

میں نے اپنی گزاری شبوں پر
اپنی آنکھوں کو پھیلا کے دیکھا
کتنے خوابوں کے پوشیدہ لمس
ان اندھیرے سے لمحوں میں
جن میں میں اکثر جیا بھی نہیں
گدگداتے رہے

Monday 20 March 2017

حال حلیہ کلام کب دیکھے

حال حلیہ کلام کب دیکھے 
دل یہ رتبہ مقام کب دیکھے 
تھام لے ہاتھ یہ فقیروں کا
کون مالک غلام کب دیکھے
جس پہ آئے، اسی پہ مر جائے
غیر کے یہ خرام کب دیکھے

ہر راہ مشتبہ تو مقامات مشتبہ

ہر راہ مشتبہ تو مقامات مشتبہ
اس شہرِ دلفگار کے دن رات مشتبہ
بازیگری ہے ایسی یہ چاروں طرف یہاں
لگنے لگی ہیں ساری کرامات مشتبہ
جو فائدے کی بات کرے تجھ سے اب تِرے
وہ شخص مشتبہ ہے مدارات مشتبہ

صدیوں کے فاصلے پر اپنا قیام اس سے

صدیوں کے فاصلے پر اپنا قیام اس سے
امید پھر صبا سے لائے پیام اس سے
مانا نہیں ہے ممکن خود لوٹ آنا اس کا
کوئی تو لے کے آئے بس اک سلام اس سے
ملتے ہیں روز اس سے انہی راستوں پہ جا کے
خالی نہیں ہے کوئی اب بھی مقام اس سے

عجب اک پردہ حائل ہے جو سرکایا نہیں جاتا

عجب اک پردہ حائل ہے جو سرکایا نہیں جاتا
بہت سیدھی سی باتوں کو بھی سمجھایا نہیں جاتا
کبھی تھا فخر یہ خود پہ کہ میرِ کارواں ہم ہیں
لٹے پھر قافلے ایسے، کہ اِترایا نہیں جاتا
بہت وعدے ہوئے ہم سے، مداوا لازمی ہو گا
مگر ہے وقت ایسا قرض لوٹایا نہیں جاتا

دل نہ دیجے اس کو اپنا جس سے یاری کیجیے

دل نہ دیجے، اس کو اپنا، جس سے یاری کیجیے
آپ اتنی تو بھلا، خاطر ہماری کیجیے
تم کو کیا چاکِ گریباں سے کسی کے کام ہے
جائیے لڑکوں میں واں، دامن سواری کیجیے
جی میں آتا ہے، کہ اک دن مار مریے آپ کو
کب تلک گلیوں میں یوں، فریاد و زاری کیجیے

جب کمر میں کٹار رکھا ہے

جب کمر میں کٹار رکھا ہے
اس نے کتنوں کو مار رکھا ہے
اِک فریبِ نگاہ پہ یاں ہم نے
سال ہا انتظار رکھا ہے
پھانس بھی گر چبھی ہے دل میں مِرے
اس نے برسوں فگار رکھا ہے

عشق صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا

عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا
تازہ کیا پیمان صنم سے، دین گیا، ایمان گیا
میں جو گدایانہ چِلّایا در پر اس کے نصفِ شب
گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا
آگے عالم عین تھا اس کا اب عین عالم ہے وہ
اس وحدت سے یہ کثرت ہے یاں میرا سب گیان گیا

رہے ہے غش و درد دو دو پہر تک

رہے ہے غش و درد دو دو پہر تک
سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک
ہوئے ہیں حواس اور ہوش و خرد گم
خبر کچھ تو آئی ہے اس بے خبر تک
زمیں گرد اس مہ کے میرے ہیں عاشق
ستارے فلک کے رہے ہیں ادھر تک

رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں

رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں 
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
شمع ہی سر نہ دے گئی برباد 
کشتہ اپنی زباں کے ہم بھی ہیں
ہم کو مجنوں کو عشق میں مت بوجھ 
ننگ اس خانداں کے ہم بھی ہیں

Saturday 18 March 2017

ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا

ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا
تم چاہتے تو تم سے یہ دشوار کچھ نہ تھا
سن کر کے واقعے کو مرے اس نے یوں کہا
کیا سچ ہے یہ، وہ اتنا تو بیمار کچھ نہ تھا
میری کشش سے آپ عبث مجھ سے رک رہے
روٹھا تھا یوں ہی جی سے میں بے زار کچھ نہ تھا

گاہ بازو پہ یہ سر گہ تہ خنجر دیکھا

گاہ بازو پہ یہ سر، گہ تہِ خنجر دیکھا
راحت و رنج تِرے ہاتھوں سے اکثر دیکھا
جو گیا نامہ کو لے کر، وہ ہوا روزئ سِیخ
واں سے پھرتا نہ کوئی ہم نے کبوتر دیکھا
ایدھر اُودھر سے جو پھرتے ہوئے ہم جا نکلے
کوچۂ یار میں ہنگامۂ محشر دیکھا

نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصہ کہانی ہے

نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصہ کہانی ہے 
فقط اک ہم ہیں بستر پر پڑے اور ناتوانی ہے
بھلا میں ہاتھ دھو بیٹھوں نہ اپنی جان سے کیوں کر 
خرام اس کے میں اک آبِ رواں کی سی روانی ہے
تُو یوں بے پردہ ہو جایا نہ کر ہر ایک کے آگے 
نیا عالم ہے تیرا اور نئی کافر جوانی ہے

رخ زلف میں بے نقاب دیکھا

رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
میں تیرہ شب آفتاب دیکھا
سرخی سے تِرے لبوں کی ہم نے
آتش کو میان آب دیکھا
قاصد کا سر آیا اس گلی سے
نامے کا مِرے جواب دیکھا

Tuesday 14 March 2017

نہ جانے ساغر و مینا پہ پیمانے پہ کیا گزری

نہ جانے ساغر و مِینا پہ، پیمانے پہ کیا گزری
جو ہم پی کر چلے آئے تو میخانے پہ کیا گزری
بڑی رنگینیاں تھیں اولِ شب ان کی محفل میں
بتاؤ بزم والو! رات ڈھل جانے پہ کیا گزری
چھپائیں گے کہاں تک رازِ محفل شمع کے آنسو
کہے گی خاکِ پروانہ، کہ پروانے پہ کیا گزری

بوسہ خال کی قیمت مری جاں ٹھہری ہے

بوسۂ خال کی قیمت مِری جاں ٹھہری ہے
چیز کتنی سی ہے اور کِتنی گراں ٹھہری ہے
چھیڑ کر پھر مجھے مصروف نہ کر نالوں میں
دو گھڑی کے لیے صیاد! زباں ٹھہری ہے
آہِ پُر سوز کو دیکھ اے دلِ کمبخت نہ روک
آگ نکلی ہے لگا کر، یہ جہاں ٹھہری ہے

یہاں تنگی قفس ہے وہاں فکر آشیانہ

یہاں تنگیِ قفس ہے وہاں فکرِ آشیانہ
نہ یہاں مِرا ٹھکانہ، نہ وہاں مِرا ٹھکانہ
مجھے یاد ہے ابھی تک تِرے جور کا فسانہ
جو میں راز فاش کر دوں تجھے کیا کہے زمانہ
نہ وہ پھول ہیں چمن میں نہ وہ شاخِ آشیانہ
فقط ایک برق چمکی، کہ بدل گیا زمانہ

میرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا

میرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا
میں اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے
کوئی فریاد کرنے آ رہا ہے، راستہ دینا 
اجازت ہو تو کہہ دوں، قصۂ الفت سرِ محفل
مجھے کچھ تو فسانہ یاد ہے، کچھ تم سنا دینا

Thursday 9 March 2017

میں انقلاب کا پیغام لے کے آیا ہوں

قصۂ پارینہ

مِرے بزرگو، مِرے ساتھیو، مرے بیٹو 
تمہارے واسطے انعام لے کے آیا ہوں 
میں انقلاب کا پیغام لے کے آیا ہوں
یہ رشوتیں ، یہ سمگلنگ یہ چور بازاری 
سیاہ داغ ہیں پیشانئ گلستاں پر 
حیات بوجھ بنی جا رہی ہے انساں پر

کیا ہوئے وہ ستارہ فام سے لوگ

کیا ہوئے وہ ستارہ فام سے لوگ
منحرف ہو گئے ہیں شام سے لوگ
کچھ تو دریائے عشق میں ہے ناں
آن گرتے ہیں جو دھڑام سے لوگ
یہ کہانی کا کون سا دن ہے
بیٹھ جاتے ہیں آ کے شام سے لوگ

چاند کا حال برا لگتا ہے

چاند کا حال بُرا لگتا ہے
جیسے کشکول پڑا لگتا ہے
جس طرف جاؤں جُھکا لگتا ہے
آسماں پہنچا ہوا لگتا ہے
کرسئ عدل گِری پڑتی ہے
کوئی سولی پہ چڑھا لگتا ہے

دیکھ لو گے ابھی دیکھا کیا ہے

دیکھ لو گے ابھی دیکھا کیا ہے
تم نہیں جانتے، دنیا کیا ہے
ڈال جاتا ہے کوئی خاک میں جان
ورنہ، یہ خاک کا پتلا کیا ہے
مانگنے والا تو بن، بعد میں دیکھ
دینے والا تجھے، دیتا کیا ہے

اس نے کل گاؤں سے جب رخت سفر باندھا تھا

اس نے کل گاؤں سے جب رختِ سفر باندھا تھا
بچہ آغوش میں تھا، پُشت پہ گھر باندھا تھا
انگلیوں پر بھی نچایا ہےسمندر ہم نے
ہم نے اک دور میں چپو سے بھنور باندھا تھا
اب جو دم گھٹتا ہے زنداں میں تو روتے کیوں ہو
تمہی لوگوں نے تو دیوار کو در باندھا تھا

بتائیں کیا کہ کہاں پر مکان ہوتے تھے

بتائیں کیا کہ کہاں پر مکان ہوتے تھے
وہاں نہیں ہیں جہاں پر مکان ہوتے تھے
سنا گیا ہے یہاں شہر بس رہا تھا کوئی
کہا گیا ہے یہاں پر مکان ہوتے تھے
وہ جس جگہ سے ابھی اٹھ رہا ہے گرد و غبار
کبھی ہمارے وہاں پر مکان ہوتے تھے

مجھ کو مرے وجود میں لانا نہیں ابھی

مجھ کو مِرے وجود میں لانا نہیں ابھی 
تُو جانتا ہے میرا زمانہ نہیں ابھی
اس کا تمام حسن مِرا حسنِ ظن سہی
لیکن یہ بات اس کو بتانا نہیں ابھی
میں نے تو اس سے یوں بھی تغافل برتنا ہے
میں نے تو اس کو یاد بھی آنا نہیں ابھی

تمام خلق سے تجھ کو جدا بنانے میں

تمام خلق سے تجھ کو جدا بنانے میں
لگی ہے عمر تجھے دیوتا بنانے میں
مجھی پہ قہر جو ٹوٹا تو اس میں حیرت کیا
مِرا بھی ہاتھ تھا اس کو خدا بنانے میں
زمانہ میرے خد و خال ڈھونڈنے نکلا
میں صَرف ہو چکا جب آئینہ بنانے میں

میں نے عکس اس کا شعر میں ایسا اتارا تھا

میں نے عکس اس کا شعر میں ایسا اتارا تھا
سب نے مِرے کلام کا صدقہ اتارا تھا
پھر اس کے بعد گر گیا سونے کا بھاؤ بھی
اک شام اس نے کان سے جھمکا اتارا تھا
کل رات فیض یاب ہوا تھا گناہ سے
کل رات پارسائی کا دھبہ اتارا تھا

تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے

تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے
کنارِ چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے
پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے
مِرا خیال تھا یہ سلسلہ دِیوں تک ہے
مگر یہ لوگ مِرے خواب بھی بجھانے لگے

Wednesday 8 March 2017

کوئی بھی شکل مرے دل میں اتر سکتی ہے

کوئی بھی شکل مِرے دل میں اتر سکتی ہے
اک رفاقت میں کہاں عمر گزر سکتی ہے
تجھ سے کچھ اور تعلق بھی ضروری ہے مِرا
یہ محبت تو کسی وقت بھی مر سکتی ہے
میری خواہش ہے کہ پھولوں سے تجھے فتح کروں
ورنہ یہ کام تو تلوار بھی کر سکتی ہے

کوئی سلسلہ نہیں جاوداں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

کوئی سلسلہ نہیں جاوداں تِرے ساتھ بھی تِرے بعد بھی
میں تو ہر طرح سے ہوں رائیگاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی
مرے ہم نفس! تُو چراغ تھا، تجھے کیا خبر مرے حال کی 
کہ جیا میں کیسے دھواں دھواں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی
نہ ترا وصال وصال تھا، نہ تِری جدائی جدائی ہے 
وہی حالتِ دلِ بدگماں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

کس کس سے کرکے اس کو خبردار جانے دوں

کس کس سے کرکے اس کو خبردار جانے دوں 
اندھے کو کیسے تنہا سڑک پار جانے دوں
دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی، وگرنہ میں 
بارش کی ایک بوند نہ بے کار جانے دوں
جی چاہتا ہے کھول دوں اندر سے کُنڈیاں 
ویرانی سُوئے رونقِ بازار جانے دوں

اب بھلے دیکھتا رہے جس کو

اب بھلے دیکھتا رہے، جس کو 
نظر آئے نہ ہم کھڑے جس کو
ہائے وہ بھیگا ریشمی پیکر
تولیہ کھردرا لگے جس کو
دل کو اتنا سجا کے پھینکا ہے
چوم کر رکھ نہ دے ملے جس کو

Tuesday 7 March 2017

نازنیں اجنبی شہر محبت میں ہوں

نازنیں! اجنبی شہرِ محبت میں ہوں
میں تیرے دیس کے اطوار سے ناواقف ہوں
دیدۂ شوق کی بے باک نگاہوں پہ نہ جا
کیا کروں جرأتِ گفتار سے ناواقف ہوں
چل پڑا ہوں تیرے دامن کو پکڑ کر، لیکن
اس کٹھن جادۂ پُر خار سے ناواقف ہوں

مہکتے میٹھے مستانے زمانے

مہکتے، میٹھے، مستانے زمانے
کب آئیں گے وہ من مانے زمانے
جو میرے کنجِ دل میں گونجتے ہیں
نہیں دیکھے وہ دنیا نے زمانے
تِری پلکوں کی جنبش سے جو ٹپکا
اسی اک پَل کے افسانے زمانے

جھونکوں میں رس گھولے دل

جھونکوں میں رس گھولے دل
پوَن چلے اور ڈولے دل
جیون کی رُت کے سو رُوپ
نغمے، پھول، جھکولے، دل
تاروں کی جب جوت جگے
اپنے خزانے کھولے دل

بچا کے رکھا ہے جس کو غروب جاں کے لئے

بچا کے رکھا ہے جس کو غروبِ جاں کے لیے
یہ ایک صبح تو ہے سیرِ بوستاں کے لیے
چلیں کہیں تو سِیہ دل زمانوں میں ہوں گی
فراغتیں بھی اس اک صدقِ رائیگاں کے لیے
لکھے ہیں لوحوں پہ جو مردہ لفظ، ان میں جییں
اس اپنی زیست کے اسرار کے بیاں کے لیے

کبھی تو سوچ ترے سامنے نہیں گزرے

کبھی تو سوچ، تِرے سامنے نہیں گزرے
وہ سب سمے جو تِرے دھیان سے نہیں گزرے
یہ اور بات کہ ہوں ان کے درمیاں میں بھی
یہ واقعے کسی تقریب سے نہیں گزرے
ان آئینوں میں جلے ہیں ہزار عکسِ عدم
دوامِ درد، تِرے رتجگے نہیں گزرے

اپنی خوشیوں کا قاتل مجھے گردانتے ہیں

اپنی خوشیوں کا قاتل مجھے گردانتے ہیں
میری کوتاہی کو، بچے بھی مِرے جانتے ہیں
بادشاہی کے برابر اسے گردانتے ہیں 
تِری گلیوں کی اگر خاک بھی ہم چھانتے ہیں
دیکھئے کون سا دکھ آتا ہے دروازے پر 
آج کل ہم بھی بہت دل کا کہا مانتے ہیں

خود کش حملے سے مت سوچیں کس کو مارا جا سکتا ہے

خودکش حملے سے مت سوچیں کس کو مارا جا سکتا ہے 
یہ سوچیں، کہ کیسے اپنا دیس سنوارا جا سکتا ہے
کام پہ جانے والے باپ کے سینے سے لگ جاؤ بچو 
لاکھوں میلوں کی دوری پر باپ تمہارا جا سکتا ہے
میں یہ کب کہتا ہوں، آ کر میری موت پہ اشک بہاؤ 
لیکن رونے والوں جیسا، روپ تو دھارا جا سکتا ہے

وہاں بھی کال پڑا پیار کی صداؤں کا

وہاں بھی کال پڑا، پیار کی صداؤں کا 
کل ایک شخص ملا مجھ سے میرے گاؤں کا
بہت ہوا تو یہی نا، کہ ہار جاؤ گے 
مقابلہ تو کرو شہر کے خداؤں کا
یہاں بھی اپنا گزارا نہ ہو سکے شاید 
کہ یہ تو شہر ہی سارا ہے پارساؤں کا

برے جو تخت پہ حاکم بٹھا دئیے گئے ہیں

برے جو تخت پہ حاکم بٹھا دئیے گئے ہیں 
یہ دکھ بھی ہم کو بطورِ سزا دئیے گئے ہیں
صلے تو دیکھئے الفت کے کیا دئیے گئے ہیں 
لہو کے داغ بدن پر سجا دئیے گئے ہیں
میں دیکھ دیکھ کے حیران ہو رہا ہوں بہت 
مِری ہی بات کو مفہوم کیا دئیے گئے ہیں

Monday 6 March 2017

خودپرستی سے عشق ہو گیا ہے

خود پرستی سے عشق ہو گیا ہے
اپنی ہستی سے عشق ہو گیا ہے
جب سے دیکھا ہے اس فقیرنی کو
فاقہ مستی سے عشق ہو گیا ہے
ایک درویش کو تِری خاطر
ساری بستی سے عشق ہو گیا ہے

مجھی کو اپنے ساتھ لے کے جا رہی تھی ایک رات

مجھی کو اپنے ساتھ لے کے جا رہی تھی ایک رات
حیات و موت کی عجب چلا چلی تھی ایک رات
مِری تمام عمر پھر اس ایک رات میں کٹی
تِری تمام عمر سے مجھے ملی تھی ایک رات
گزر رہے تھے سامنے سے روز و شب کے قافلے
ادب سے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوئی تھی ایک رات

مجھے خبر نہ ہوئی عمر بھر کہاں گیا میں

مجھے خبر نہ ہوئی عمر بھر کہاں گیا میں
گزرتے وقت نجانے گزر کہاں گیا میں
نجانے تلخیاں کس کی اتار دیں کس میں 
نجانے میں کہاں ٹوٹا، بکھر کہاں گیا میں
کہاں سے آیا تھا اس کی خبر نہیں لیکن
نشان دے گا غبارِ سفر کہاں گیا میں

ورد جاری ہے وجد طاری ہے

وِرد جاری ہے وجد طاری ہے
کیفیت یہ بھی اختیاری ہے
مجھ دِیے کو تلاش کر لو تو
میری سب روشنی تمہاری ہے
کیا ضروری کہ تم نے جیتی ہو
ہر وہ بازی جو میں نے ہاری ہے

Thursday 2 March 2017

یوں تیرے حسن کی تصویر غزل میں آئے

یوں تیرے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
جبر سے ایک ہوا ذائقۂ ہجر و وصال
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے
ہمسفر تھی جہاں فرہاد کے تیشے کی صدا
وہ مقامات بھی کچھ سیرِ جبل میں آئے

بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں

بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں
کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں
لفظوں میں بولتا ہے رگِ عصر کا لہو
لکھتا ہے دستِ غیب کوئی اس کتاب میں
تُو ڈھونڈتی ہے اب کسے اے شامِ زندگی
دو دن تو خرچ ہو گئے غم کے حساب میں

دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو

دن ڈھلا رات پھر آ گئی، سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی، سو رہو سو رہو
سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
گرم سنسان قریوں کی دھرتی مہکنے لگی
خاک رشکِ اِرم بن گئی سو رہو سو رہو