کس کس سے کرکے اس کو خبردار جانے دوں
اندھے کو کیسے تنہا سڑک پار جانے دوں
دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی، وگرنہ میں
بارش کی ایک بوند نہ بے کار جانے دوں
جی چاہتا ہے کھول دوں اندر سے کُنڈیاں
اس رسہ کش پہ ڈھیل کا احسان کچھ نہیں
کب تک میں درگزر کروں ہر بار جانے دوں
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment