Monday, 20 March 2017

صدیوں کے فاصلے پر اپنا قیام اس سے

صدیوں کے فاصلے پر اپنا قیام اس سے
امید پھر صبا سے لائے پیام اس سے
مانا نہیں ہے ممکن خود لوٹ آنا اس کا
کوئی تو لے کے آئے بس اک سلام اس سے
ملتے ہیں روز اس سے انہی راستوں پہ جا کے
خالی نہیں ہے کوئی اب بھی مقام اس سے
راتوں میں خواب ہیں تو دن میں خیال اس کا
اب بھی چلے ہمارا سارا نظام اس سے
یادوں سے جب کرے ہے، تنہائی گلے شکوے
دیوار سوچتی ہے، ہم ہمکلام اس سے
بدلے ہیں طور اس نے، ہم آج بھی ہیں قائم
اپنا تو بس یہی ہے اب انتقام اس سے
سارا قصور اپنا، کب کچھ خطا ہے اس کی
کاہے بنائے رشتے ہم نے تمام اس سے
ابرکؔ مجال کس کی کہہ دے برا جو اس کو
اس عشق کو ملا ہے سارا دوام اس سے

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment