صدیوں کے فاصلے پر اپنا قیام اس سے
امید پھر صبا سے لائے پیام اس سے
مانا نہیں ہے ممکن خود لوٹ آنا اس کا
کوئی تو لے کے آئے بس اک سلام اس سے
ملتے ہیں روز اس سے انہی راستوں پہ جا کے
راتوں میں خواب ہیں تو دن میں خیال اس کا
اب بھی چلے ہمارا سارا نظام اس سے
یادوں سے جب کرے ہے، تنہائی گلے شکوے
دیوار سوچتی ہے، ہم ہمکلام اس سے
بدلے ہیں طور اس نے، ہم آج بھی ہیں قائم
اپنا تو بس یہی ہے اب انتقام اس سے
سارا قصور اپنا، کب کچھ خطا ہے اس کی
کاہے بنائے رشتے ہم نے تمام اس سے
ابرکؔ مجال کس کی کہہ دے برا جو اس کو
اس عشق کو ملا ہے سارا دوام اس سے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment