دل نہ دیجے، اس کو اپنا، جس سے یاری کیجیے
آپ اتنی تو بھلا، خاطر ہماری کیجیے
تم کو کیا چاکِ گریباں سے کسی کے کام ہے
جائیے لڑکوں میں واں، دامن سواری کیجیے
جی میں آتا ہے، کہ اک دن مار مریے آپ کو
مارے تلواروں کے، اتّو کر دیا سینہ مرا
چاہیے تو، اور بھی کچھ، دستکاری کیجیے
ہجر کی شب، ہم کو یوں، کہتی ہے ہنگامِ اخیر
ہو چکی اختر شماری، دم شماری کیجیے
کیا کریں ہم، صبر پر اپنا نہیں کچھ اختیار
ورنہ یوں مجبور ہوتے، اختیاری کیجیے
بگڑے ہے اپنی ہی بات، اس کا تو کچھ جاتا نہیں
تنگ آ کر مصحفیؔ، گر بے قراری کیجیے
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment