تمام خلق سے تجھ کو جدا بنانے میں
لگی ہے عمر تجھے دیوتا بنانے میں
مجھی پہ قہر جو ٹوٹا تو اس میں حیرت کیا
مِرا بھی ہاتھ تھا اس کو خدا بنانے میں
زمانہ میرے خد و خال ڈھونڈنے نکلا
مرادِ منزلِ مقصود ہے کسی کا نصیب
کٹی ہے عمر مِری راستہ بنانے میں
پلک جھپکنے میں مسمار ہو گیا صاحب
وہ شہر جس کو زمانہ لگا بنانے میں
بہت کھٹن تھا رضؔا اپنا سامنا کرنا
کئی زمانے لگے حوصلہ بنانے میں
اختر رضا سلیمی
No comments:
Post a Comment