Thursday, 9 March 2017

تمام خلق سے تجھ کو جدا بنانے میں

تمام خلق سے تجھ کو جدا بنانے میں
لگی ہے عمر تجھے دیوتا بنانے میں
مجھی پہ قہر جو ٹوٹا تو اس میں حیرت کیا
مِرا بھی ہاتھ تھا اس کو خدا بنانے میں
زمانہ میرے خد و خال ڈھونڈنے نکلا
میں صَرف ہو چکا جب آئینہ بنانے میں
مرادِ منزلِ مقصود ہے کسی کا نصیب
کٹی ہے عمر مِری راستہ بنانے میں
پلک جھپکنے میں مسمار ہو گیا صاحب
وہ شہر جس کو زمانہ لگا بنانے میں
بہت کھٹن تھا رضؔا اپنا سامنا کرنا 
کئی زمانے لگے حوصلہ بنانے میں

‫اختر رضا سلیمی

No comments:

Post a Comment