رہے ہے غش و درد دو دو پہر تک
سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک
ہوئے ہیں حواس اور ہوش و خرد گم
خبر کچھ تو آئی ہے اس بے خبر تک
زمیں گرد اس مہ کے میرے ہیں عاشق
قیامت ہے مشتاق لوگوں کی کثرت
پہنچنا ہے مشکل ہمیں اس کے گھر تک
کہاں تک اسے سر سے مارا کروں میں
نہ پہنچا مِرا ہاتھ اس کی کمر تک
بہار آئی پر ایک پتی بھی گل کی
نہ آئی اسیرانِ بے بال و پر تک
بہت میؔر برہم جہاں میں رہیں گے
اگر رہ گئے آج شب کی سحر تک
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment