زباں جب خود سے بڑھ کر ہانکتی ہے
تو عزت اس کی مٹی پھانکتی ہے
وہ دیکھو سامنے ہے گھر ہمارا
اداسی کھڑکیوں سے جھانکتی ہے
بنا کر مجھ کو اپنا اک کھلونا
یہ کالی رات کالے گیسوؤں سے
مِرے سارے بدن کو ڈھانکتی ہے
عروسِ فن بصیرت چاہتی ہے
مناظر کھڑکیوں پر ٹانکتی ہے
لبوں پر پیاس کا صحرا بچھائے
محبت مجھ کو کیسا آنکتی ہے
اسی کو شاعری کہتے ہیں راشدؔ
جو زلفوں میں ستارے ٹانکتی ہے
راشد فضلی
No comments:
Post a Comment