خدا ہمارا ہے
خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے
اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے
لہو پیو گے کہاں تک ہمارا دھنوانو
بڑھاؤ اپنی دکاں سیم و زر کے دیوانو
نشاں کہیں نہ رہے گا تمہارا شیطانو
ہمیں یقیں ہے کہ انسان اس کو پیارا ہے
خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے
اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے
نئے شعور کی ہے روشنی نگاہوں میں
اک آگ سی بھی ہے اب اپنی سرد آہوں میں
کھلیں گے پھول نظر کے سحر کی بانہوں میں
دکھے دلوں کو اسی آس کا سہارا ہے
خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے
اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے
طلسم سایۂ خوف و ہراس توڑیں گے
قدم بڑھائیں گے زنجیر یاس توڑیں گے
کبھی کسی کے نہ ہم دل کی آس توڑیں گے
رہے گا یاد جو عہد ستم گزارا ہے
اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے
حبیب جالب
No comments:
Post a Comment