میں نے عکس اس کا شعر میں ایسا اتارا تھا
سب نے مِرے کلام کا صدقہ اتارا تھا
پھر اس کے بعد گر گیا سونے کا بھاؤ بھی
اک شام اس نے کان سے جھمکا اتارا تھا
کل رات فیض یاب ہوا تھا گناہ سے
کس راہ پر لے آئی ہے یہ مفلسی مجھے
میں نے ابھی سکول کا بستہ اتارا تھا
خود کو سرِ وصال کِیا تھا سپردِ ہجر
اک روز یوں بھی قرضِ تمنا اتارا تھا
برسوں پرانا زخم کوئی یاد آ گیا
کل شب ہوا نے پیڑ سے پتا اتارا تھا
اختؔر وہ چہرہ دھیان میں لانے کی دیر تھی
لہروں نے مجھ کو ساحلوں پر جا اتارا تھا
اختر رضا سلیمی
No comments:
Post a Comment