تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے
کنارِ چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے
پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے
مِرا خیال تھا یہ سلسلہ دِیوں تک ہے
وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے
ہماری دربدری بھی کسی ٹھکانے لگے
میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا
شجر حجر بھی مِرے ساتھ گنگنانےلگے
دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے
تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے
ادھر سے گزرے جو اختر کبھی بہار کے ساتھ
تو پھول ہم کو تِری داستاں سنانے لگے
اختر رضا سلیمی
No comments:
Post a Comment