Thursday 23 March 2017

ہٹاؤ آئینہ امیدوار ہم بھی ہیں

ہٹاؤ آئینہ امیدوار ہم بھی ہیں 
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
تڑپ کے روح یہ کہتی ہے ہجر جاناں میں 
کہ تیرے ساتھ دل بے قرار ہم بھی ہیں
رہے دماغ اگر آسماں پہ دور نہیں 
کہ تیرے کوچہ میں مست غبار ہم بھی ہیں
کہو کہ نخل چمن ہم سے سرکشی نہ کریں 
انہیں کی طرح سے باغ و بہار ہم بھی ہیں
ہمارے آگے ذرا ہو سمجھ کے زمزمہ سنج 
کہ ایک نغمہ سرا اے ہزار ہم بھی ہیں
کہاں تک آئینے میں دیکھ بھال ادھر دیکھو 
کہ اک نگاہ کے امیدوار ہم بھی ہیں
شراب منہ سے لگاتے نہیں ہیں اے زاہد 
فراق یار میں پرہیزگار ہم بھی ہیں
ہمارا نام بھی لکھ لو جو ہے قلم جاری 
قدیم آپ کے خدمت گزار ہم بھی ہیں
ہما ہیں گرد مِری ہڈیوں کے آٹھ پہر 
سگ آ کے کہتے ہیں امیدوار ہم بھی ہیں
جو لڑکھڑا کے گرے تو قدم پہ ساقی کے 
امیرؔ مست نہیں ہوشیار ہم بھی ہیں 

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment