دلِ مایوس کو اے عہدِ کرم شاد نہ کر
ناز پروردۂ غم ہے اسے برباد نہ کر
اے تقاضائے خرد مجھ پہ یہ بیداد نہ کر
میں ہوں دنیائے محبت مجھے برباد نہ کر
غمِ ہستی ہی سہی، تیرے سوا کوئی ہو
صبر شایاںِ محبت تو نہیں ہے لیکن
شکر اگر بن نہ پڑے شکوئے بیداد نہ کر
دل کی حد سے اثر زیست نہ گزرے فانیؔ
ہوش لازم ہے مگر ہوش کو آزاد نہ کر
فانی بدایونی
No comments:
Post a Comment