Saturday, 25 March 2017

ابتدائے فصل گل ہے اور حصار نغمہ ہے

ابتداۓ فصلِ گل ہے اور حصارِ نغمہ ہے
آتشِ آئندگاں کو انتظارِ نغمہ ہے
کنجِ آشفتہ سری میں رنگِ لالہ کے تئیں
لرزشِ دستِ حنائی انتشارِ نغمہ ہے
طائرانِ سرخ سے اک بات کہنی ہے مجھے
اب کہاں، کس جا پہ وہ پروردگارِ نغمہ ہے
منتظر بیٹھا ہوں بچپن کے پرندے کے لیے
دو گلابوں سے ادھر اک جوئبارِ نغمہ ہے
زمزمہ پیرا ہے شاعر اور صحرا کے یہ پھول
دور تک ان وادیوں میں اعتبارِ نغمہ ہے

ثروت حسین

No comments:

Post a Comment