مجھ کو مِرے وجود میں لانا نہیں ابھی
تُو جانتا ہے میرا زمانہ نہیں ابھی
اس کا تمام حسن مِرا حسنِ ظن سہی
لیکن یہ بات اس کو بتانا نہیں ابھی
میں نے تو اس سے یوں بھی تغافل برتنا ہے
ہم بھی ہیں اس نگاہ کے مقروضِ التفات
لیکن یہ قرض ہم نے چکانا نہیں ابھی
کیوں آ گئی ہیں منزلیں میرے طواف کو
میں تو کسی بھی سمت روانہ نہیں ابھی
اختر رضا سلیمی
No comments:
Post a Comment