یہ دنیا ہے ارے ناداں نہ اس کے جال میں آنا
کہا کچھ اور جاتا ہے کیا کچھ اور جاتا ہے
یہ سودا ہے نرا دھوکا نظر کا کھیل ہے سارا
دکھایا اور جاتا ہے، دیا کچھ اور جاتا ہے
ہے مانا زندگی تیری مگر مرضی نہیں تیری
ترا تھا گھاؤ ہی ظالم طبیبوں کی خطا کیا ہے
ہوا کچھ اور گہرا جب سیا کچھ اور جاتا ہے
محبت تیری باتوں میں یہ کیسی چاشنی ہوتی
کہ مطلب اور ہوتا ہے لیا کچھ اور جاتا ہے
یہ ابرک شاعری ہے یا کہ ہے یہ دل لگی تیری
حقیقت اور ہوتی ہے بتا کچھ اور جاتا ہے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment