نازنیں! اجنبی شہرِ محبت میں ہوں
میں تیرے دیس کے اطوار سے ناواقف ہوں
دیدۂ شوق کی بے باک نگاہوں پہ نہ جا
کیا کروں جرأتِ گفتار سے ناواقف ہوں
چل پڑا ہوں تیرے دامن کو پکڑ کر، لیکن
مست ہوں عشرتِ آغاز کی سرمستی میں
میں ابھی عاقبت کار سے ناواقف ہوں
سونگھنی ہے تیری زلفوں سے ابھی بوئے جنوں
ابھی دامن کے پھٹے تار سے ناواقف ہوں
دیکھ لوں تجھ کو تو بے ساختہ پیار آتا ہے
پیار آتا ہے، مگر پیار سے ناواقف ہوں
دل میں یہ جذبۂ بیدار ہے کیا، تُو ہی بتا
میں تو اس جذبۂ بیدار سے ناواقف ہوں
اک مسافر ہوں تیرے دیس میں آ نکلا ہوں
اور تیرے دیس کے اطوار سے ناواقف ہوں
مجید امجد
No comments:
Post a Comment