Thursday, 23 March 2017

لگ چلی باد صبا کیا کسی مستانے سے

لگ چلی بادِ صبا کیا کسی مستانے سے
جھومتی آج چلی آتی ہے مے خانے سے
چُور ہو جاؤں مگر جاؤں نہ مے خانے سے
عہد شیشے سے، تو پیمان ہے پیمانے سے
روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اوڑی جاتی ہے ساقی تِرے پیمانے سے
گر پڑا ہوں نگہِ مست سے چکر کھا کر
ساقیا! پہلے اُٹھا تُو مجھے پیمانے سے
فکر ہے دوست کو احوال سناؤں کیونکر
ٹکڑے ہو جاتا ہے کلیجا مِرے افسانے سے
وہی وحشت ہے، وہی خار، وہی ویرانہ
دشت کس بات میں اچھا مِرے کاشانے سے
سختیاں کھینچنے کی ہو گئی عادت مجھ کو
بت چلے آئیں نہ کھنچ کر کہیں بت خانے سے
ڈر ہے تاثیر نہ کر جائے کسی کی فریاد
کان بھر لیجیے پہلے مِرے افسانے سے
دلِ برباد میں آباد ہوئے عشق و جنون
کوئی بستی نہیں بہتر مِرے ویرانے سے
شکل ثابت نظر آتی نہیں عمامے کی
شیخ نے بدلی ہے پگڑی کسی مستانے سے
کر دیا صاف الگ دل نے ہمیں الفت میں
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں بے گانے سے
جانشیں قیس کے سب وحشئ صحرا ہو جائیں
دشت آباد نہ ہو گر تِرے دیوانے سے
نگہِ مست تری گر ہی پڑی دل پہ مرے
لغزشِ پا نہ سنبھالی گئی مستانے سے
اس کی بے داد نے چھوڑی نہیں عالم میں جگہ
نالے گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں دیوانے سے
ایک چلّو میں بہت داغ ّ بہک اٹھتے تھے
آج سنتے ہیں نکالے گئے مے خانے سے

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment