تیری خوشبو مری سانسوں میں بسانے آئے
دل کی دنیا میں بہاروں کے زمانے آئے
یہ الگ بات کہ تعبیر نہ دے ساتھ مرا
خواب تو جتنے بھی آئے وہ سہانے آئے
وہ ہے مغرور، مگر پیارسے مجبور بھی ہے
کیوں ترس آیا ہے اس کو مِری تنہائی پر
وہ مجھے میری نظر سے نہ گرانے آئے
وہ بتائے نہ مجھے، اپنے بچھڑنے کا سبب
اس سے کہہ دو، وہ مِرا دل نہ جلانے آئے
پیار کیا ہوتا ہے، اب تک مجھے معلوم نہ تھا
چوٹ کھائی تو مِرے ہوش ٹھکانے آئے
جو مِرا دل بھی سجا دے مِرے چہرے پہ قتیلؔ
وہ مصور مِری تصویر بنانے آئے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment