Wednesday, 29 March 2017

تیری خوشبو مری سانسوں میں بسانے آئے

تیری خوشبو مری سانسوں میں بسانے آئے
دل کی دنیا میں بہاروں کے زمانے آئے
یہ الگ بات کہ تعبیر نہ دے ساتھ مرا
خواب تو جتنے بھی آئے وہ سہانے آئے
وہ ہے مغرور، مگر پیارسے مجبور بھی ہے
خود ہی ناراض کرے خود ہی منانےآئے
کیوں ترس آیا ہے اس کو مِری تنہائی پر
وہ مجھے میری نظر سے نہ گرانے آئے
وہ بتائے نہ مجھے، اپنے بچھڑنے کا سبب
اس سے کہہ دو، وہ مِرا دل نہ جلانے آئے
پیار کیا ہوتا ہے، اب تک مجھے معلوم نہ تھا
چوٹ کھائی تو مِرے ہوش ٹھکانے آئے
جو مِرا دل بھی سجا دے مِرے چہرے پہ قتیلؔ
وہ مصور مِری تصویر بنانے آئے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment