کوئی سلسلہ نہیں جاوداں تِرے ساتھ بھی تِرے بعد بھی
میں تو ہر طرح سے ہوں رائیگاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی
مرے ہم نفس! تُو چراغ تھا، تجھے کیا خبر مرے حال کی
کہ جیا میں کیسے دھواں دھواں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی
نہ ترا وصال وصال تھا، نہ تِری جدائی جدائی ہے
میں یہ چاہتا ہوں کہ عمر بھر رہے تشنگی مِرے عشق میں
کوئی جستجو رہے درمیاں، ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی
مِرے نقشِ پا تجھے دیکھ کر یہ جو چل رہے ہیں انہیں بتا
ہے مِرا سراغ، مِرا نشاں، ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment