غنچہ و گل کا شمار، سب کے لیے کیوں نہیں
دامنِ ابرِ بہار سب کے لیے کیوں نہیں
چشمۂ آبِ صفا تیرے تصرف میں کیوں
اے مِرے ناقہ سوار! سب کے لیے کیوں نہیں
باغ کی بنیاد میں سب کا لہو ہے تو پھر
چند گھرانوں تلک تیرے کرم کی جھلک
جنبشِ ابروئے یار، سب کے لیے کیوں نہیں
تیری عنایت کے در مجھ پہ کھلے ہیں مگر
اے مِرے پروردگار، سب کے لیے کیوں نہیں
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment