Wednesday 29 March 2017

رات کے سناٹے میں ہم نے کیا کیا دھوکے کھائے ہیں

رات کے سناٹے میں ہم نے کیا کیا دھوکے کھائے ہیں
اپنا ہی جب دل دھڑکا تو ہم سمجھے وہ آئے ہیں
بند جھروکے سونی گلیاں، یا پھر غم کے سائے ہیں
چاند ستارے نکلے ہیں لیکن میرے لیے کیا لائے ہیں
جس دن سے تم بچھڑ گئے یہ حال ہے اپنی آنکھوں کا
جیسے دو بادل ساون کے آپس میں ٹکرائے ہیں
یہ تو راہ نہ بھولو گے تم اب تو ہم سے آن ملو
دیکھو ہم نے پلک پلک پر سو سو دیپ جلائے ہیں
ہائے قتیلؔ اس تنہائی میں کیا سوجھی ہے موسم کو
جس دن سے وہ پاس نہیں اس دن سے بادل چھائے ہیں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment